بایومیٹرک تصدیق ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جو انسان کی انوکھے جسمانی یا سلوکی خصوصیات کو اس کی شناخت کی تصدیق کے لیے استعمال کرتی ہے۔ پچھلے دو دہائیوں میں، خاص طور پر 2000 اور 2010 کی دہائیوں میں، بایومیٹرک تصدیق میں نمایاں تبدیلیاں اور ترقی ہوئی ہیں، جس نے اسے سیکیورٹی اور ڈیٹا کی حفاظت کے شعبے میں اہم ذریعہ بنا دیا ہے۔
اگرچہ بایومیٹرک تصدیق کا تصور قدیم زمانے سے موجود ہے، لیکن اس کی جدید نوعیت کو نافذ کرنے کے لیے طریقہ کار کی ترقی جدید ٹیکنالوجی کی آمد کے ساتھ شروع ہوئی۔ 2000 کے ابتدائی سالوں میں پہلے آلات سامنے آئے جو انگلی کے نشانات اور آنکھ کے قزحیہ کی شناخت کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے، جس نے اس کے استعمال کے نئے امکانات کھول دیے۔
2000 کی دہائی کی شروعات سے ہی بایومیٹرک ٹیکنالوجی کے میدان میں نمایاں پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے۔ ایسے الگورڈمز کی ترقی جو بڑے پیمانے پر ڈیٹا کو تیزی سے اور درست طریقے سے پروسیس کر سکتے ہیں، نے شناختی نظاموں کی استحکام اور درستگی کو بہتر بنایا۔ 2004 تک، پہلے ہی کمرشل طور پر دستیاب نظام سامنے آ چکے تھے جو کاروباری اداروں اور سرکاری اداروں میں رسائی کے کنٹرول کے لیے بایومیٹرک تصدیق کا استعمال کر رہے تھے۔
بایومیٹرک تصدیق مختلف شعبوں میں متعارف ہونا شروع ہوگئی۔ تعلیم، صحت، مالیاتی شعبہ اور سرکاری ادارے بایومیٹرک نظاموں کو ڈیٹا کی حفاظت اور رسائی کے انتظام کے لیے فعال طور پر استعمال کرنے لگے۔ اس طرح، 2009 میں معنوی تجزیے کی بنیاد پر چہرے کی شناخت کے نظام متعارف کروائے گئے، جو زیادہ بصیرت دار اور آسان حل کی جانب اہم قدم ثابت ہوئے۔
2010 کی دہائی کا آغاز اہم تبدیلیوں کا وقت تھا۔ 2010 میں ایپل نے iPhone 4S متعارف کروایا جس میں آواز کی شناخت کی خصوصیت موجود تھی، جس نے موبائل آلات میں بایومیٹری کے استعمال کے نئے مواقع کھول دیے۔ 2013 میں ایپل نے مزید آگے بڑھتے ہوئے Touch ID انگلی کے نشان کی سکینر کو متعارف کروایا، جس نے بایومیٹرک تصدیق کو عام صارفین کے لیے زیادہ قابل رسائی بنا دیا۔
بایومیٹرک تصدیق کی ترقی چیلنجز کے بغیر نہیں گزری۔ بنیادی مسئلہ ڈیٹا کی سیکیورٹی اور رازداری ہے۔ بایومیٹرک معلومات کے انکشاف کے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں، کیونکہ جسمانی خصوصیات کی جگہ نہیں لی جا سکتی، برعکس پاسورڈز کے۔ مزید برآں، بایومیٹرک ڈیٹا کے جمع کرنے اور ذخیرہ کرنے کے بارے میں اخلاقیات کے سوالات بھی ابھرے ہیں، ساتھ ہی صارفین کی منظوری کے بغیر ان کا استعمال کرنے کے حوالے سے بھی۔
ٹیکنالوجیز کی ترقی جیسے کہ مصنوعی ذہانت اور مشین لرننگ کے ساتھ، بایومیٹرک تصدیق کا عمل جاری ہے۔ توقع ہے کہ مستقبل میں ہم چہرے اور آواز کی شناخت جیسے زیادہ درست اور قابل اعتماد طریقے اور نئے طریقے دیکھیں گے جو صارفین کے انوکھے سلوک پر مبنی ہوں گے۔ نظام میں خامیاں ہوسکتی ہیں، مگر ان کی ترقی سیکیورٹی اور سہولت میں اضافہ کے لیے نئے مواقع بھی فراہم کرتی ہے۔
بایومیٹرک تصدیق نے اپنے وجود کے بعد سے ایک طویل سفر طے کیا ہے، اور 2000 اور 2010 کی دہائیوں میں اس کی ترقی سیکیورٹی کی یقینی بنانے میں ایک اہم مرحلہ ہے۔ ٹیکنالوجی کو بہتر بنانا جاری ہے، اور اس کا مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ ہم سیکیورٹی کے چیلنجز اور اخلاقی مسائل کا سامنا کس طرح کرتے ہیں جو یہ لاتی ہے۔ یہ ضروری ہے کہ صارفین ممکنہ خطرات کے بارے میں آگاہ ہوں اور اپنے بایومیٹرک ڈیٹا کے استعمال کے حوالے سے متوازن فیصلے کریں۔