1989 میں افغانستان سے سویویٹ افواج کی واپسی کے بعد کا دور ملک کے لئے گہرے تبدیلیوں کا سبب بنا، جو طویل تنازعہ، سیاسی عدم استحکام اور اقتصادی مشکلات کا باعث بن گیا۔ یہ دور نئے سیاسی قوتوں کی تشکیل، انتہا پسندی کے بڑھنے اور بیرونی مداخلت کا گواہ رہا، جس نے افغان قوم کی تقدیر پر سنجیدہ اثر ڈالا۔
1989 کے فروری میں سویویٹ افواج کی واپسی افغانستان کی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل تھا۔ تاہم، اس سے امن قائم نہیں ہوا۔ برعکس، شروع ہونے والی خانہ جنگی نے مختلف مجاہدین فریکشنز کے درمیان شدید تنازعہ کو جنم دیا، جو پہلے سویویٹ مداخلت کے خلاف مل کر لڑتے تھے۔ اقتدار اور علاقے پر کنٹرول کے لئے لڑائی معمول بن گئی، اور ان میں سے کئی گروہ انتہا پسند طریقے اپنانے لگے۔
1992 میں کمیونسٹ نظام کے گرنے کے بعد ملک میں اقتدار مجاہدین کی اتحادی جماعت کے پاس منتقل ہوگیا، لیکن ان کی اختلافات جلد ہی ایک نئی لہر کی خشونت کا سبب بن گئے۔ خانہ جنگی اپنے عروج پر پہنچی، اور مختلف جماعتیں کابل اور دیگر اہم شہروں پر کنٹرول کے لئے ایک دوسرے سے لڑنے لگیں۔
1990 کی دہائی کے آغاز پر افغانستان کے سیاسی منظر پر ایک نئی طاقت ابھری — طالبان۔ یہ اسلامی جماعت، جو بنیادی طور پر مذہبی مدارس کے طلباء پر مشتمل تھی، نے ملک میں نظم و نسق اور استحکام بحال کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے مقبولیت حاصل کرنا شروع کی۔ 1996 میں طالبان نے کابل پر قابض ہو کر سخت اسلامی نظام نافذ کیا۔
طالبان کی سیاست میں خواتین کے حقوق پر سخت پابندیاں، جرائم کے لئے سخت سزائیں اور اسلامی قانون کی تشریحات کا اطلاق شامل تھا۔ ان اقدامات کی داخلی اور خارجی دونوں سطحوں پر شدید مذمت ہوئی۔ اس کے باوجود، طالبان نے کچھ حد تک استحکام حاصل کیا، حالانکہ اس کی قیمت آزادیوں اور انسانی حقوق کی سرکوبی تھی۔
طالبان کی سیاست کے باعث افغانستان بین الاقوامی سطح پر ایک مفلوج ملک بن گیا۔ 1998 میں طالبان نے خود کو افغانستان کی حکومت تسلیم کیا، لیکن کئی ممالک، بشمول امریکہ، نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ طالبان نے مختلف دہشت گرد گروہوں، بشمول القاعدہ، کو پناہ دی، جو آخر کار تباہ کن نتائج کا باعث بنی۔
11 ستمبر 2001 کو امریکہ میں القاعدہ کے ذریعہ منعقدہ دہشت گردانہ حملے افغانستان کے لئے ایک موڑ ثابت ہوئے۔ اس واقعے نے بین الاقوامی ردعمل کو جنم دیا اور افغانستان میں جنگ شروع کی۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے "نہ ختم ہونے والی آزادی" آپریشن کا آغاز کیا، جس کا مقصد طالبان کے نظام کو ختم کرنا اور دہشت گرد جماعتوں کو مٹانا تھا۔
اکتوبر 2001 میں ایک مداخلت کا آغاز ہوا، جس کے نتیجے میں طالبان کے نظام کا تیز رفتار خاتمہ ہوا۔ تاہم، اس کے بعد افغانستان کی تاریخ میں ایک نئی باب شروع ہوا — ملک کی بحالی، جس کے دوران کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ نئے حکومت، جس کی قیادت حامد کرزئی کر رہے تھے، نے بدعنوانی، بنیادی ڈھانچے کی کمی اور سیکیورٹی کی مشکلات کا سامنا کیا۔
عالمی برادری، بشمول اقوام متحدہ اور نیٹو، بحالی کی کوششوں کی حمایت کرتی رہی، تاہم طالبان کے ساتھ تنازع برقرار رہا۔ گروہ نے اپنی سرگرمیاں دوبارہ شروع کیں اور حکومتی قوتوں اور بین الاقوامی دستوں پر حملے شروع کیے، جس سے ملک میں تشدد کا سلسلہ جاری رہا۔
طالبان کے گرنے کے بعد افغانستان کی بحالی متعدد سنگین مسائل کا سامنا کر رہی تھی۔ سیکیورٹی کے مسائل، غربت، بدعنوانی اور مستحکم ریاستی اداروں کی عدم موجودگی اب بھی مسائل بنتے رہے۔ تعلیم اور صحت، اگرچہ کچھ حد تک بہتر ہوئی، اب بھی بڑے چیلنجز کا سامنا کر رہی تھیں۔
خواتین، جو طالبان کے دور میں سخت پابندیوں کا شکار تھیں، نے زیادہ حقوق حاصل کرنا شروع کیا، لیکن وہ اب بھی سماجی اور اقتصادی مشکلات کا سامنا کر رہی تھیں۔ ملک کے بہت سے شہری زندگی کی معمول پر آنے کی کوشش کر رہے تھے، تاہم استحکام اب بھی نازک حالت میں تھا۔
2020 کی دہائی میں افغانستان کی صورتحال اب بھی عدم استحکام کی حالت میں رہی۔ 2020 میں امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پائے گئے امن معاہدوں کے باوجود، لڑائیاں جاری رہی، اور ملک میں اب بھی غیر یقینی اور تشدد کی حالت رہی۔ اگست 2021 میں طالبان نے دوبارہ اقتدار حاصل کر لیا، جس نے عالمی تشویش اور انسانی بحران کو جنم دیا۔
افغانستان، جو ثقافتوں اور تاریخوں کے سنگم پر واقع ہے، سخت وقت سے گزر رہا ہے۔ اس کی قوم، جو ایک غنی تاریخ رکھتی ہے، نئے چیلنجوں کا سامنا کر رہی ہے اور امن و خوشحالی کی کوشش کر رہی ہے۔ ملک کا مستقبل اب بھی غیر یقینی ہے، اور بین الاقوامی برادری اس خطے میں ہونے والی پیش رفت پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
سویویٹ مداخلت کے بعد کا دور افغانستان کی تاریخ میں ایک اہم مرحلہ ثابت ہوا۔ ملک مسلسل جاری تنازعات، اندرونی سیاسی لڑائیوں اور بیرونی مداخلتوں کا شکار رہا، جس کا دور رس اثر اس کی تقدیر پر پڑا۔ موجودہ حقیقتیں افغان قوم کے مسائل کے حل کے لئے جامع نقطہ نظر کی ضرورت ظاہر کرتی ہیں، اور بحالی اور پائیدار امن کے حصول میں بین الاقوامی برادری کی مدد کی ضرورت ہے۔