2020 کی دہائی خلا کی تحقیق کی تاریخ میں ایک اہم موڑ بن گئی۔ ایک اہم اقدام جس نے سب سے زیادہ دلچسپی حاصل کی، وہ مریخ پر پرواز کا پروگرام ہے۔ یہ عظیم منصوبہ لوگوں کو سرخ سیارے کی طرف بھیجنے، اس کے فضائی آواز، ارضیات اور ممکنہ وسائل کی تحقیق اور کالونائزیشن کی صلاحیت کا جائزہ لینے کے لئے تیار کیا گیا ہے۔ یہ پروگرام نئی ٹیکنالوجیوں کے نفاذ کے لئے ضروری ہے جو نہ صرف مریخ کی تحقیق میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں بلکہ شمسی نظام کے دیگر سیاروں کی تحقیق میں بھی مدد گار ثابت ہو سکتی ہیں۔
مریخ پر مشنز کا آغاز 20ویں صدی کے آخر میں ہوا، لیکن 2020 کی دہائی میں یہ نئی زندگی حاصل کر گئیں، خاص طور پر راکٹ ٹیکنالوجی، روبوٹکس اور مصنوعی ذہانت کے میدان میں اہم ترقی کی بدولت۔ 2020 تک، مختلف خلا کی ایجنسیوں، جیسے NASA، ESA اور نجی کمپنیوں، بشمول SpaceX، نے مریخ پر انسانی مشنز کے خیالات پر کام شروع کر دیا۔ ایک اہم مقصد 2030 کی دہائی میں پہلی انسانی مشن کو عملی شکل دینا تھا۔
2020 کی دہائی میں مریخ پر پرواز کے پروگرام کی ترقی پر کئی اہم کھلاڑی اثر انداز ہوئے۔ NASA نے اپنے منصوبوں کو آگے بڑھانا شروع کیا، بشمول Artemis، جو مریخ پر آئندہ مشنز کی بنیاد رکھتا تھا۔ ESA نے بھی سرخ سیارے کی کالونائزیشن کے مواقع کی تحقیق کے لئے پروگرام پیش کیے۔ SpaceX نے ایلون مسک کی قیادت میں Starship راکٹ تیار کیا، جو مریخ پر لوگوں اور سامان کی ترسیل کے لئے اہم ٹرانسپورٹ وسيلة بننے والا تھا۔
نئی ٹیکنالوجیوں کی ترقی انسانی مشنز کے کامیاب نفاذ کے لئے ناگزیر تھی۔ ایک اہم کامیابی راکٹ انجن کے شعبے میں بہتری تھی۔ SpaceX نے Starship نامی متعدد بار استعمال ہونے والے راکٹ کی پیش کش کی، جسے بین سیاروی پروازوں کے لئے قابل اعتماد اور اقتصادی طور پر موثر قرار دیا گیا۔ اس کے علاوہ، زندگی کی حمایت کی ٹیکنالوجیوں اور خلا کی گاڑیوں کے خودکار کنٹرول کی ترقی کی جا رہی تھی، جو عملے کے خطرات کو کم کرنے میں مدد دیتی تھیں۔
مریخ پر پرواز کے پروگرام کی ایک اہم حصہ سائنسی تحقیقات اور تجربات کا انعقاد تھا۔ 2020 کی دہائی میں، سیارے کی سطح پر متعدد روور مشنز بھیجے گئے، جنہوں نے ریگولائٹ کے نمونے جمع کیے اور فضائی آواز کا مطالعہ کیا۔ اس پروگرام کے تحت بایوسفیئر اور مختلف حالتوں میں پانی کی موجودگی کی ممکنہ تحقیق کا منصوبہ بھی بنایا گیا۔ ان تحقیقات سے حاصل شدہ سائنسی ڈیٹا انسانی پروازوں کی تیاری کے لئے انتہائی اہم تھا۔
بین الاقوامی تعاون مریخ پر پرواز کے پروگرام کا لازمی حصہ بن گیا۔ خلا کی ایجنسیوں والے ممالک نے علم اور ٹیکنالوجیوں کے تبادلے کے لئے اتحاد قائم کیا۔ مشترکہ مشنز، جیسے ESA اور NASA کے تعاون میں، نے زیادہ جامع منصوبے تیار کرنے کی اجازت دی جن میں مختلف تحقیقی ادارے اور یونیورسٹیاں شامل ہو سکیں۔ اس تعاون نے خرچ کو کم کرنے اور ٹیکنالوجیوں کی ترقی کی رفتار بڑھانے کا موقع فراہم کیا۔
تمام کامیابیوں کے باوجود، مریخ کی تحقیقات پر مبنی خلا کے پروگرام کو بے شمار مسائل کا سامنا تھا۔ سیارے کی دوری، تابکاری، پرواز کی مدت اور عملے کی زندگی کی ضروریات — ان تمام چیزوں نے متعدد تکنیکی چیلنجز پیدا کیے۔ اس کے علاوہ، مالی، سیاسی اور سائنسی پہلو بھی سوالیہ تھے، اور اضافی سرمایہ کاری کی ضرورت روز بروز بڑھتی گئی۔
تیز رفتار ٹیکنالوجیوں کی تبدیلیوں کے پیش نظر، مریخ پر پرواز کے پروگرام کو نئی حالتوں اور سائنسی معلومات کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔ مشن کے اہم وقت 2020 کی دہائی کے آخر اور 2030 کی دہائی کے آغاز کے لئے مقرر ہیں، جب سرخ سیارے پر پہلی بار انسانی پرواز ہو گی۔ پروگرام کی کامیابی ممکنہ طور پر نہ صرف انسانیت کے لئے ایک اہم قدم ثابت ہو گی بلکہ دیگر سیاروں کی تحقیقات کے نئے افق بھی کھولے گی۔
2020 کی دہائی میں مریخ پر پرواز کا پروگرام انسانیت کی اس کی دنیا کی حدود کی کھوج کی خواہش کی عکاسی کرتا ہے۔ سائنسی تحقیقات کی حمایت، ٹیکنالوجیوں میں سرمایہ کاری اور بین الاقوامی تعاون اس پروگرام کی کامیابی کے کلیدی عوامل ہوں گے۔ مریخ پر انسانی مشن مستقبل میں دیگر سیاروں کی کالونائزیشن کے لئے سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے، اور ہماری اعلی اہداف کے حصول کے لئے مشکلات کو عبور کرنے کی صلاحیت کا علامت بھی۔