شمالی مقدونیہ کی آزادی کی راہ ایک پیچیدہ اور کثیر پہلو دار عمل ہے، جو ایک صدی سے زیادہ کی تاریخ کا احاطہ کرتا ہے۔ 20ویں صدی کے آغاز سے لے کر 1991 میں مکمل آزادی حاصل کرنے تک، ملک نے بہت ساری سیاسی، سماجی اور ثقافتی تبدیلیوں کا سامنا کیا، جنہوں نے اس کی شناخت کو تشکیل دیا۔ یہ عمل چیلنجز، جھگڑوں اور خود مختاری کی خواہشات سے بھرا ہوا تھا، جو جدید مقدونیائی ریاست کی بنیاد بن گیا۔
شمالی مقدونیہ، جیسے دیگر بالکن کی ریاستیں، تاریخ کے دوران مختلف سلطنتوں اور ریاستوں کے اثرات کے تحت رہی ہے۔ 20ویں صدی کے آغاز میں یہ سربیا کے کنٹرول میں تھی، جس نے علاقے کی سیاسی اور ثقافتی صورتحال کو متعین کیا۔ اس دور میں قومی تشخص کی تحریکیں بڑھنے لگیں، جو آزادی کی جدوجہد کی بنیاد بن گئیں۔
بلقان کی جنگوں (1912-1913) کے بعد، جو عثمانی حکمرانی کا اختتام تھا، مقدونیہ کو سربیا، یونان اور بلغاریا کے درمیان تقسیم کر دیا گیا۔ لیکن بہت سے مقدونیائیوں نے خود مختاری اور آزادی کی خواہش کی، جو ان کی ثقافتی اور سیاسی کوششوں میں واضح نظر آتی تھی۔
دوسری عالمی جنگ اس علاقے کی تاریخ میں ایک اہم موڑ ثابت ہوئی۔ مقدونیہ مختلف قوتوں کے درمیان جھگڑوں کا مقام بن گئی، اور بہت سے مقدونیائی پارٹیزن تحریک میں شامل ہوئے۔ جنگ کے بعد یوگوسلاویہ کی فیڈرل پیپل ریپبلک قائم کی گئی، اور مقدونیہ کو اس کی ایک ریاست کا درجہ ملا۔ یہ مقدونیائی قومیت کی ترقی کے لیے ایک نئی تحریک فراہم کرتا ہے۔
لیکن، رسمی خود مختاری کے باوجود، مقامی حکومتیں بیلگریڈ میں مرکزی حکومت کے دباؤ میں رہیں۔ 1940 کی دہائی اور 1950 کی دہائیوں میں مقدونیائی عوام کے حقوق اور مزید خود مختاری کے مطالبات بڑھنے لگے، جو آزادی اور اپنی ثقافتی شناخت کی تسلیم کرنے کی خواہش کو ظاہر کرتے تھے۔
1980 کی دہائی کی شروعات سے، یوسپ بروتھ ٹیٹو کی موت کے بعد، یوگوسلاویہ میں سنگین سیاسی اور اقتصادی مسائل پیدا ہوئے۔ ان حالات میں ریاستوں میں قومی تشخص کی تحریکیں بڑھنے لگیں۔ مقدونیائی نہ صرف اقتصادی اصلاحات کا مطالبہ کرنے لگے، بلکہ خود مختاری کی حقوق کے لیے بھی آواز بلند کرنے لگے، جس کی وجہ سے آزادی کے مطالبات بھی بڑھنے لگے۔
1990 میں مقدونیہ میں پہلی بار کثیر الجماعتی انتخابات ہوئے، جس میں مقدونیائی سوشلسٹ پارٹی نے کامیابی حاصل کی۔ یہ کامیابی آزادی کی طرف ایک اہم قدم ثابت ہوا، کیونکہ پارٹی نے یوگوسلاویہ کے اندر مقدونیائی عوام کے حقوق کے تحفظ کی وکالت کی۔
ستمبر 1991 میں شمالی مقدونیہ میں آزادی کے حق میں ریفرنڈم منعقد ہوا، جس میں 90 فیصد سے زیادہ ووٹرز نے یوگوسلاویہ سے علیحدگی کے حق میں ووٹ دیا۔ یہ اقدام مقدونیائی قوم کی آزادی اور خود مختاری کی خواہش کا ایک علامت بن گیا۔ 8 ستمبر 1991 کو مقدونیہ نے باقاعدہ اپنی آزادی کا اعلان کیا، جس نے ملک کے اندر اور باہر دونوں جانب مختلف ردعمل پیدا کیے۔
تاہم، آزادی متعدد مسائل کے گرد گھری ہوئی تھی۔ مقدونیہ کو ہمسایہ ریاستوں کی طرف سے خطرات کا سامنا کرنا پڑا اور داخلی جھگڑوں کا بھی سامنا کرنا پڑا، خاص طور پر ان لوگوں کے ساتھ جو اپنے حقوق کا مطالبہ کر رہے تھے۔ یہ حالات نئے ریاست کی آزادی کو مستحکم کرنے اور بین الاقوامی سطح پر شناخت حاصل کرنے کے لیے پیچیدہ حالات پیدا کر رہے تھے۔
مقدونیہ کی آزادی کو بہت سے ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کے ذریعہ تسلیم کیا گیا، بشمول اقوام متحدہ نے 1993 میں۔ تاہم، مؤثر حکومتی اداروں کی تشکیل اور اقتصادی مسائل کا حل اب بھی اہم چیلنجز تھے۔ کم اقتصادی ترقی کی سطح، بلند بے روزگاری اور سیاسی عدم استحکام عوام کی زندگی اور ملک کی بین الاقوامی حیثیت پر منفی اثر ڈال رہے تھے۔
صورتحال اندرونی نسلی جھگڑوں سے بھی متاثر ہوئی، خاص طور پر مقدونیائیوں اور البانیوں کے درمیان، جس کی وجہ سے تناؤ اور 2000 کی دہائی کے اوائل میں مسلح جھڑپیں بھی ہوئی۔ ان جھگڑوں نے بین الاقوامی برادری کی مداخلت کی ضرورت پیدا کی اور 2001 میں اوہریڈ معاہدے پر دستخط کا سبب بنی، جو اقلیتوں کے حقوق کی ضمانت فراہم کرتا تھا اور ملک میں پائیدار امن کے حصول کے لیے بنیاد فراہم کرتا تھا۔
شمالی مقدونیہ کی آزادی کی راہ طویل اور مشکل تھی، جس میں بہت سے چیلنجز اور رکاوٹیں شامل تھیں۔ مقدونیائی قوم کی خود مختاری اور اپنی شناخت کی تسلیم کی خواہش جدید مقدونیائی ریاست کی تشکیل کی بنیاد بنی۔ مشکلات کے باوجود، ملک نے بین الاقوامی سطح پر اپنی حیثیت قائم کرنے اور جمہوریت کی ترقی میں کافی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
آج شمالی مقدونیہ معاشی صورتحال، قومی اتحاد کو مضبوط بنانے اور بین الاقوامی ڈھانچوں میں انضمام کی کوشش کر رہی ہے۔ آزادی کی راہ مستقبل کی نسلوں کے لیے ایک اہم سبق بن گئی ہے، جو آزادی، خود مختاری اور انصاف کی قدر کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔