وہ دور جب ازبکستان روسی سلطنت کے حصے میں تھا، ایک اہم تاریخی دور تھا جو انیسویں صدی کی دوسری نصف اور بیسویں صدی کے آغاز کو محیط کرتا ہے۔ اس عرصے میں علاقے کی سماجی-اقتصادی، سیاسی اور ثقافتی زندگی میں نمایاں تبدیلیاں آئیں۔ ازبکستان کا روسی سلطنت میں شمولیت ایک اہم سنگ میل ثابت ہوئی، جس نے ملک کی ترقی پر طویل مدتی اثرات مرتب کیے۔
اٹھارہویں صدی کے آخر تک وسطی ایشیا روس اور برطانیہ دونوں کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ یہ دونوں طاقتیں اپنی سرحدوں کو پھیلانے اور اہم اسٹریٹجک علاقوں پر کنٹرول قائم کرنے کی خواہاں تھیں۔ روس نے وسطی ایشیا میں اپنی پوزیشن کو مستحکم کرنے کے لیے موجودہ ازبکستان کی سرزمین پر بکھرے ہوئے خانوں، جیسے کہ بخارا اور خیوا، کے خلاف فعال فوجی کارروائیاں شروع کیں۔
وسطی ایشیا میں روسی توسیع کی وجوہات میں صرف علاقے کی توسیع کی خواہش ہی نہیں تھیں، بلکہ جنوب کی سرحدوں کو خانہ بدوش قبائل اور ہمسایہ ریاستوں سے آنے والے خطرات سے محفوظ رکھنے کی ضرورت بھی شامل تھی۔ علاوہ ازیں، روس کا تجارتی راستوں پر کنٹرول کو یقینی بنانا اور اس علاقے کی پیش کردہ دولت تک رسائی حاصل کرنا بھی ایک اہم مقصد تھا۔
روسی توسیع کی پہلی اہم لہر 1864 میں شروع ہوئی، جب روسی افواج نے تاشقند پر قبضہ کر لیا، جو ایک اہم انتظامی مرکز بن گیا۔ یہ قبضہ وسطی ایشیا کے تسلط کے ایک بڑے مہم کے تحت کیا گیا۔ روسی جنرلوں نے تیز اور فیصلے کے ہتھکنڈوں کا استعمال کیا، جس سے انہیں مقامی حکام کی مزاحمت کو دبا کر علاقے پر جلد کنٹرول قائم کرنے کی اجازت ملی۔
تاشقند کی فتح کے بعد 1865 میں بخارا خانہ کے خلاف مہم کا آغاز کیا گیا، جو 1920 میں روسی سلطنت میں شامل ہوا، جبکہ خیوا خانہ 1924 میں خاتم کیا گیا۔ یہ فتوحات علاقے کے سیاسی نقشے کو تبدیل کرنے کا باعث بنیں اور ازبکستان کی تاریخ میں ایک نئے دور کا آغاز کیا۔
ازبکستان کا روسی سلطنت میں شمولیت نے علاقے میں سماجی اور اقتصادی ڈھانچے میں نمایاں تبدیلیاں کیں۔ روسی انتظامیہ نے مرکزی کنٹرول اور بیوروکریسی کے اصولوں کی بنیاد پر نئے انتظامی طریقے متعارف کرائے۔ یہ تبدیلیاں مقامی آبادی پر اثر انداز ہوئیں، جو نئے ٹیکس کے نظام، فوجی خدمات، اور مقامی سیاست میں تبدیلیوں کا سامنا کر رہی تھیں۔
اقتصادی نقطہ نظر سے، روسی کنٹرول نے بنیادی ڈھانچے کی ترقی کی، جیسے کہ ریلوے کی تعمیر، جو مختلف علاقوں کے درمیان رابطے کو بہتر بناتا تھا اور تجارت میں اضافہ کرتا تھا۔ تاہم، بہت ساری روایتی طریقے مٹی کے ساتھ ساتھ ختم ہو گئی، جس نے مقامی آبادی کی ناپسندیدگی کو جنم دیا۔ اگرچہ صنعتی ترقی دیکھی گئی، لیکن یہ امپیریل کے یورپی حصے کی طرح نمایاں نہیں تھی، اور بنیادی طور پر قدرتی وسائل کی نکاسی اور زراعت پر مبنی تھی۔
ازبکستان کی ثقافتی زندگی بھی روسی توسیع کے نتیجے میں تبدیلیوں سے گزری۔ روسی تعلیمی اداروں، جیسے کہ اسکولوں اور یونیورسٹیوں، کا قیام نے تعلیمی نظام میں تبدیلیاں پیدا کیں۔ روسی زبان نے ایک سرکاری زبان کے طور پر اپنا مقام حاصل کیا، جس نے علاقے کی لسانی ماحول پر اثر ڈالا۔
تاہم، روسی ثقافت نے مقامی روایات کو ختم نہیں کیا، بلکہ ان کے ساتھ رہنا شروع کر دیا۔ مقامی ذہنوں نے روسی ثقافت اور سائنس کو سیکھنا شروع کر دیا، جس سے پڑھے لکھے لوگوں کی نئی کلاس کی تشکیل میں مدد ملی۔ اس دور میں قومی خود آگاہی اور مقامی تاریخ اور ثقافت کے بارے میں دلچسپی میں اضافہ ہوا۔
انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے آغاز میں ازبکستان میں قومی آزادی کی تحریک کی نشوونما ہونے لگی۔ مقامی اشرافیہ اور اہل علم نے اپنے لوگوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا شروع کر دیا، اور روس کی نوآبادیاتی پالیسی کی مذمت کی۔ یہ تحریک اقتصادی مشکلات اور سیاسی ظلم و ستم کے پس منظر میں خاص طور پر شدت اختیار کر گئی۔
نیشنل خود آگاہی کی بڑھتی ہوئی لہر نے مختلف ثقافتی اور سیاسی تنظیموں کے قیام کا باعث بنی، جو ازبک لوگوں کے مفادات اور ثقافتی روایات کے تحفظ کے لیے کوشاں تھیں۔ یہ تحریکیں آنے والے تبدیلیوں کی اہم علامت بن گئیں، جو 1917 کے انقلاب کے بعد وقوع پذیر ہوئیں۔
1917 کے فروری اور اکتوبر انقلاب کے واقعات نے ازبکستان کی تقدیر پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ روسی سلطنت ٹوٹ گئی، اور نئی تقریبات نے پرانی روایات کی جگہ لے لی جو سوشلزم اور کمیونزم کے نظریات پر مبنی تھیں۔ اس نے مقامی لوگوں کے لیے اپنی خود مختاری اور خود حکمرانی کی راہ میں نئے مواقع فراہم کیے۔
جنگ کے بعد اور 1924 میں ازبک سوشلسٹ ریپبلک کے قیام کے بعد، ازبکستان کو سوشلسٹ اتحاد کے تحت خود مختار جمہوریہ کا درجہ ملا۔ یہ نئی حیثیت علاقے کی اقتصادی، سماجی اور ثقافتی زندگی میں بڑی تبدیلیاں لے کر آئی، جو سوشلسٹ نظام کے تحت ترقی کرتی رہی۔
ازبکستان کا روسی سلطنت کے حصے میں رہنے کا دور ایک اہم مرحلہ رہا، جس نے علاقے کی ترقی پر طویل مدتی اثرات مرتب کیے۔ فتوحات کے پہلے نقصان دہ اثرات کے باوجود، اس دور نے سماجی-اقتصادی اور ثقافتی زندگی میں اہم تبدیلیوں کی راہ ہموار کی، جو پڑھے لکھے لوگوں کی نئی کلاس کی تشکیل اور قومی خود آگاہی کے ابھار کا باعث بنی۔
اس وقت کے واقعات مستقبل کی تبدیلیوں اور تحریکوں کی بنیاد بنے، جو 1991 میں آزاد ازبکستان کی تشکیل کی طرف لے گئے۔ اس طرح، ازبکستان کی روسی سلطنت کے حصے کی تاریخ جدوجہد، انطباق اور ثقافتی تعامل کی کہانی ہے، جو آج بھی اپنی اہمیت برقرار رکھتی ہے۔