مہاتما گاندھی، پورا نام موہن داس کرم چند گاندھی، 2 اکتوبر 1869 کو پورے، بھارت میں پیدا ہوئے۔ وہ بھارت کی آزادی کی جدوجہد کی تاریخ میں سب سے بااثر رہنما بن گئے اور عدم تشدد کے مزاحمت کا علامت بن گے۔ ان کی فلسفہ، جو آہیمسا (عدم تشدد) اور ستیہ (حق) کے اصولوں پر مبنی تھی، نے دنیا بھر میں انسانی حقوق کی کئی تحریکات پر نمایاں اثر ڈالا۔
گاندھی ایک متوسط طبقے کے خاندان میں پیدا ہوئے اور بچپن سے ہی فلسفہ اور مذہب میں دلچسپی رکھتے تھے۔ انہوں نے لندن میں تعلیم حاصل کی، جہاں انہوں نے قانون کی تعلیم حاصل کی۔ اس دوران انہیں نسل پرستی اور تعصب کا سامنا کرنا پڑا، جس نے ان کی دنیا بینی پر گہرا اثر ڈالا۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد گاندھی نے جنوبی افریقہ میں وکالت کے طور پر کام کیا، جہاں انہیں بھارتیوں کے ساتھ تفریق کا سامنا کرنا پڑا۔ 1893 میں انہوں نے نسلی انصاف کے خلاف پہلی مہم کا آغاز کیا، جس میں انہوں نے عدم تشدد کے طریقوں کا استعمال کیا۔ یہ دور ان کی قیادت اور فلسفی کے طور پر ترقی میں اہم موڑ بن گیا۔
"طاقت جسمانی صلاحیت سے نہیں آتی۔ یہ ایک ناپائیدار ارادے سے آتی ہے۔"
1915 میں گاندھی بھارت واپس آئے اور آزادی کی تحریک میں سرگرم حصہ لینا شروع کیا۔ ان کا طریقہ کار بائیکاٹ، عدم تشدد کے احتجاج اور شہری نافرمانی کی مہمات پر مشتمل تھا۔ انہوں نے 1930 میں نمک مارچ جیسے بڑے اجتماعات کا اہتمام کیا جو برطانوی نوآبادیاتی حکمرانی کے خلاف جدوجہد کا علامت بن گیا۔
گاندھی یقین رکھتے تھے کہ عدم تشدد سب سے طاقتور ہتھیار ہے جسے انسان اختیار کر سکتا ہے۔ ان کے طریقے دنیا بھر میں شہری حقوق اور آزادی کی کئی تحریکات کو متاثر کرتے رہے، جن میں امریکہ میں مارٹن لوتھر کنگ اور جنوبی افریقہ میں نیلسن منڈیلا کی تحریکات شامل ہیں۔
گاندھی کے بنیادی اصول آہیمسا اور ستیہ تھے جو ان کی فلسفہ کا سنگ بنیاد بن گئے۔ آہیمسا کا مطلب عدم تشدد اور تمام جانداروں کے ساتھ عزت ہے، جبکہ ستیہ حق اور انصاف سے وابستہ ہے۔ گاندھی کا خیال تھا کہ یہی اقدار حقیقی آزادی حاصل کرنے میں مددگار ثابت ہوں گی۔
1947 میں بھارت نے بالاخر برطانوی نوآبادیاتی حکومت سے آزادی حاصل کی، اور گاندھی اس عمل کی ایک اہم شخصیت بن گئے۔ تاہم ان کی خوشی اس وقت متاثر ہوئی جب ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تصادم نے ملک کی تقسیم کا باعث بنا، جس کے نتیجے میں بھارت اور پاکستان بنے۔
"حقیقی خوشی وہ ہے جب آپ اپنے آپ کے ساتھ ہم آہنگ ہوں۔"
30 جنوری 1948 کو گاندھی کو ایک انتہا پسند نے ہلاک کر دیا، جو ان کے عدم تشدد اور صلح کے خیالات کے خلاف تھا۔ ان کی موت بھارت اور پوری دنیا کے لیے ایک بڑی نقصان بن گئی۔ تاہم، گاندھی کے خیالات آج بھی زندہ ہیں اور لوگوں کو انصاف، برابری اور امن کی جدوجہد کے لیے متاثر کرتے ہیں۔
گاندھی کی فلسفہ آج بھی دنیا بھر میں متعدد تحریکات اور رہنماوں پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ عدم تشدد کی مزاحمت اور فعالیت انسانی حقوق، ماحولیاتی تبدیلیوں اور سماجی اصلاحات کے لیے موجودہ جدوجہد میں اہم اور متعلقہ ہیں۔ ان کے اقوال اور خیالات تعلیمی اداروں میں سیکھے جاتے ہیں اور کئی تنظیموں کے طریقوں میں شامل کیے جاتے ہیں۔
مہاتما گاندھی لاکھوں لوگوں کے لیے امید اور بہادری کی علامت رہے ہیں۔ ان کی زندگی اور خیالات ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ عدم تشدد اور حق انصاف کے لیے ایک طاقتور ہتھیار بن سکتے ہیں۔ ہمیں ان کی وراثت کو یاد رکھنا چاہیے اور اپنی روزمرہ کی زندگی میں ان کے نظریات کی جانب بڑھنا چاہیے۔
"وہ تبدیلی بنیں، جو آپ دنیا میں دیکھنا چاہتے ہیں۔"