آخری چند سالوں میں طب اور بایو انجینئرنگ کے میدان میں نمایاں کامیابیاں سامنے آئی ہیں، جن میں خاص طور پر مصنوعی آنکھوں کی ریٹینا پر توجہ دی گئی ہے۔ یہ آلات آنکھوں کی مختلف بیماریوں مثلاً ماکولا کی ڈگریڈیشن یا ذیابیطس کی ریٹینوپیتھی کا شکار لوگوں کے لیے ایک اہم قدم آگے بڑھانے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اس شعبے میں تحقیق اور ترقی 2020 سے جاری ہے، اور یہ پہلی بار نہ صرف نظریاتی بن چکی ہے بلکہ عملی طور پر بھی قابل استعمال ہے۔
مصنوعی ریٹینا کی تخلیق کا خیال 2020 کی دہائی سے بہت پہلے سے ترقی پذیر ہو رہا تھا۔ 2010 کی دہائی میں مائیکرو الیکٹرانکس اور نیورو سائنسز کے میدان میں پہلے اہم ترین انکشافات ہوئے، جنہوں نے ریٹینا کے پروٹیزنگ کی ترقی کی بنیاد رکھی۔ تاہم، کامیابیاں محدود تھیں، اور مکمل طور پر فعال آلے کی تخلیق کے لیے مزید وقت اور وسائل کی ضرورت تھی، جو بینائی کی بحالی کے قابل ہو سکے۔
2019 میں مختلف ممالک میں نئی تحقیقات کا آغاز ہوا، اور پہلے کلینیکل ٹرائلز نے دکھایا کہ باقی خلیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے الیکٹروڈ کا استعمال مثبت نتائج دے سکتا ہے۔ ان ابتدائی کوششوں نے بڑے طبی اداروں اور سائنسی تنظیموں کی جانب سے فعال فنڈنگ اور دلچسپی کو متحرک کیا۔
2020 کی دہائی فعال ترقیات اور نئے ٹیکنالوجیوں کے نفاذ کا دور بن گئی، جس کی مدد سے ریٹینا کے کام کی تبدیلی کے لیے بہتر آلات تیار کیے جا رہے ہیں۔ ایک کلیدی سمت مائیکرو الیکٹروڈز کے استعمال میں تھی، جو آنکھ کے ٹشوز میں براہ راست بجلی کے جھٹکے منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
اس وقت تیار کردہ مصنوعی ریٹینا میں وہ عناصر شامل ہیں جو روشنی کے علامات کو بجلی میں تبدیل کرتے ہیں، جو بعد میں بصری اعصاب میں منتقل ہوتے ہیں۔ یہ ان لوگوں کی بینائی بحال کرنے میں مدد کرتا ہے جن کی ریٹینا میں جزوی فعالیت موجود ہے۔
پہلے کامیاب منصوبوں میں سے ایک "آئرس" منصوبہ تھا، جس کا مقصد بایوڈیگریڈیبل مصنوعی ریٹینا بنانا تھا۔ 2021 میں رضاکاروں پر اس آلے کی ایمپلانٹیشن کرنے کے کلینیکل ٹرائلز شروع ہوئے۔ نتائج نے ظاہر کیا کہ 70% شرکاء میں بصری تصاویر کے تجربے میں نمایاں بہتری آئی، جس نے بینائی کی بحالی کی ٹیکنالوجیز کی مزید ترقی کی امید پیدا کی۔
ایک اور اہم کامیابی 2022 میں ہوئی، جب ایک زیادہ کمپیکٹ اور طاقتور مصنوعی ریٹینا کا ورژن پیش کیا گیا، جو مزید پیچیدہ معاملات میں استعمال ہو سکتا تھا۔ اس ٹیکنالوجی نے مزید پس منظر کی تحقیقات کا موقع فراہم کیا، جو اس کی تاثیر اور حفاظت کی تصدیق کے لیے ضروری تھا۔
جیسے کہ ہر نئی ٹیکنالوجی، مصنوعی آنکھوں کی ریٹینا بھی ان کی سیکیورٹی اور اخلاقی پہلوؤں کے بارے میں کئی سوالات اٹھاتی ہے۔ ڈاکٹروں اور ڈویلپرز نے ایمپلانٹیشن کی سفارشات کی تشکیل میں جامع نقطہ نظر کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ معیارات اور قواعد واضح طور پر متعین ہونے چاہئیں تاکہ مریضوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔
اس ٹیکنالوجی کے استعمال کے ممکنہ نتائج پر بھی بات چیت کی جا رہی ہے، جس میں وصول کنندگان کی نفسیاتی اور جذباتی حالت پر اثرات شامل ہیں۔ ایک اور اہم مسئلہ مختلف آبادی کے طبقوں کے مریضوں کے لیے ٹیکنالوجی کی دستیابی ہے، کیونکہ ان میں سے کچھ کی قیمت کافی زیادہ ہوسکتی ہے۔
موجودہ پیشگوئیوں کے مطابق، مصنوعی ریٹینوں کی ٹیکنالوجیز ہر سال ترقی کرتی رہیں گی۔ سائنسدان جدید نیورل نیٹ ورک الگورڈمز کے ساتھ انضمام کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں تاکہ بصری علامات کا زیادہ درست تجزیہ اور تشریح کی جا سکے۔ یہ مریضوں کی بحالی کے لیے نئے افق کھولے گا اور شاید بصری فعل کی بہتری کے لیے بہتر معیار فراہم کرے گا۔
مصنوعی ریٹینوں کا مستقبل خوش آئند دکھائی دیتا ہے۔ پراڈکٹس اور اخلاقی پریشانیوں پر قابو پانے کے لیے اب بھی بہت سی تکنیکی اور اخلاقی رکاوٹیں باقی ہیں، اس سے پہلے کہ یہ ٹیکنالوجیز وسیع عوام کے لیے دستیاب ہوجائیں۔
مصنوعی آنکھوں کی ریٹینا جدید دنیا میں طب اور بایو میڈیکل انجینئرنگ کی سب سے سرحدی جہتوں میں سے ایک ہے۔ ان آلات کی ترقی اور ان کا کلینیکل پریکٹس میں نفاذ بہت سے محققین اور ڈاکٹروں کی محنت کا نتیجہ ہے، جو بصری خرابیوں کا شکار لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگرچہ یہ سفر صرف شروع ہوا ہے، لیکن اب بھی بینائی کی بحالی کے جدید ٹیکنالوجیوں کے شعبے میں ہمارے سامنے جو مواقع اور امیدیں ہیں، ان کے بارے میں بات کی جا سکتی ہے۔