دوسری جنگ عظیم، جو 1939 سے 1945 تک پوری دنیا میں پھیلی، نے آئس لینڈ جیسے چھوٹے ممالک پر نمایاں اثرات مرتب کیے۔ حالانکہ آئس لینڈ خود براہ راست لڑائیوں میں شامل نہیں تھا، یہ بڑی طاقتوں کے اسٹریٹجک مفادات کے چوراہے پر آ گیا، جس کے نتیجے میں اس کی قبضے اور سماجی و اقتصادی ڈھانچے میں تبدیلی ہوئی۔ اس مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ جنگ نے آئس لینڈ کو کس طرح متاثر کیا، اس کی قبضے، نتائج اور معاشرے پر اثرات۔
جب دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی، تو آئس لینڈ ایک خود مختار بادشاہت تھی جو ڈنمارک کے ساتھ اتحاد میں تھی۔ 1918 سے آئس لینڈ کو خود مختاری حاصل تھی، لیکن سیاسی مسائل میں یہ ڈنمارک پر منحصر رہی۔ یہ صورتحال کچھ مشکلات پیدا کرتی تھی، کیونکہ چھوٹی ملک کی محدود وسائل کی بناء پر اپنی خارجہ پالیسی پر مکمل کنٹرول نہیں تھا۔
جب 1939 میں جنگ شروع ہوئی، تو بہت سے آئس لینڈی شہری خوف اور عدم یقینی کا سامنا کر رہے تھے۔ جغرافیائی طور پر یورپ اور شمالی امریکہ کے درمیان واقع، آئس لینڈ کا اسٹریٹجک اہمیت تھی، جس کی وجہ سے نازی جرمنی اور برطانیہ دونوں کی توجہ حاصل ہوئی۔
اپریل 1940 میں، جنگ کے آغاز کے فوراً بعد، نازی جرمنی نے ڈنمارک پر قبضہ کر لیا۔ اس واقعے نے آئس لینڈ میں شدید تشویش پیدا کی، کیونکہ ملک جرمن فوجوں کا اگلا ہدف بن سکتا تھا۔ اس کے جواب میں 10 مئی 1940 کو برطانیہ نے آئس لینڈ پر قبضہ کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ ممکنہ جرمن قبضے سے بچا جا سکے۔
برطانیہ نے آئس لینڈ میں اپنی فوج اتاری، اور قبضہ بہت کم مزاحمت کے ساتھ شروع ہوا۔ آئس لینڈی شہریوں نے برطانوی فوجوں کو محافظ کے طور پر دیکھا، تاہم بہت سے لوگوں نے بھی خود مختاری کے نقصان کی وجہ سے ناپسندیدگی محسوس کی۔ برطانوی فوجی موجودگی نے فوجیوں اور شہری کارکنوں کی تعداد میں اضافہ کیا، جس نے مقامی معیشت اور معاشرت کی ساخت میں تبدیلی لائی۔
قبضے کے بعد آئس لینڈ برطانوی فوجوں کے لیے ایک اہم اسٹریٹجک نقطہ بن گیا۔ برطانیہ اپنی سرزمین کا استعمال کرتے ہوئے شمالی اٹلانٹک کو کنٹرول کر سکتا تھا اور شمالی امریکہ اور یورپ کے درمیان رابطہ برقرار رکھ سکتا تھا۔ اس کا نتیجہ فوجی ساز و سامان کے لئے بنیادی ڈھانچے اور گوداموں کے قیام میں ہوا۔
اسی دوران قبضے نے آئس لینڈیوں کی زندگی میں تبدیلیاں پیدا کیں۔ برطانوی فوجوں کو خوراک اور دیگر وسائل کی ضرورت تھی، جس نے مقامی معیشت کو فروغ دیا۔ مقامی کسانوں نے غیر ملکی فوجیوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے زیادہ فصلیں پیدا کرنا شروع کردیں۔ اس نے تجارت اور کاروبار کی ترقی میں بھی معاونت کی۔
1941 میں، نازی جرمنی کی جانب سے بڑھتے ہوئے خطرے کے ساتھ، برطانیہ نے آئس لینڈ پر امریکی فوجوں کے کنٹرول کی منتقلی کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ برطانوی فوجوں کو دوسرے محاذوں پر لڑنے کے لئے آزاد کرنے کے لئے کیا گیا۔ جون 1941 میں امریکی فوجیوں نے آئس لینڈ میں اترائی کی، اور اس لمحے سے امریکی قبضہ شروع ہوا۔
امریکی فوجی موجودگی برطانوی فوجیوں سے زیادہ وسیع تھی، اور 1943 تک آئس لینڈ میں تقریباً 40,000 امریکی فوجی موجود تھے۔ وہ نہ صرف فوجی سیکیورٹی فراہم کر رہے تھے، بلکہ ملک کی اقتصادی ترقی کو بھی فروغ دے رہے تھے۔ مقامی باشندوں نے امریکی بیسوں پر کام کیا اور تنخواہ حاصل کی، جس کے نتیجے میں زندگی کی سطح میں اضافہ ہوا۔
قبضے نے آئس لینڈی معاشرے پر بھی اثر ڈالا۔ خواتین نے بیسوں اور تجارت میں کام کرنا شروع کر دیا، جس سے معاشرے میں روایتی کرداروں میں تبدیلی آئی۔ یہ بڑی صنفی مساوات کے لئے ایک ابتدائی قدم تھا، جو جنگ کے بعد آئس لینڈ کی سیاست کا ایک اہم پہلو بن گیا۔
تاہم، قبضہ آئس لینڈیوں میں بھی ناپسندیدگی کا باعث بنا۔ بعض شہری غیر ملکی کنٹرول اور قومی خود مختاری کے نقصان کے بارے میں ناپسندیدگی محسوس کرتے تھے۔ یہ تنازعہ خاص طور پر جنگ کے اختتام کے بعد شدت اختیار کر گیا، جب آئس لینڈ کے لوگ اپنی خود مختاری حاصل کرنے اور قوم کے طور پر اپنے حقوق کے قیام کی کوشش کر رہے تھے۔
دوسری جنگ عظیم کے اختتام کے بعد 1945 میں آئس لینڈ دوبارہ ایک اہم موڑ پر آ گیا۔ امریکہ نے ملک چھوڑتے وقت کئی بنیادی ڈھانچے اور مقامات چھوڑے، لیکن آئس لینڈ کی خود مختاری کو سرکاری سطح پر حمایت حاصل نہیں تھی۔ لیکن 1944 میں آئس لینڈ نے خود مختاری کا اعلان کیا اور ایک جمہوریہ بن گئی۔
جنگ کا آئس لینڈ پر اثر متنوع تھا۔ قبضے نے معیشت کو مستحکم اور معاشرہ کو جدید بنایا، لیکن اس نے آئس لینڈیوں کی سوچ میں بھی نشانات چھوڑ دیے۔ ملک میں غیر ملکی فوجی موجودگی کا سوال ابھرا، اور 1949 میں آئس لینڈ نے نیٹو میں شمولیت اختیار کی، جس نے آبادی میں متضاد رد عمل پیدا کیا۔
جنگ اور اس کے بعد کے قبضے کے نتیجے میں آئس لینڈ کی معیشت میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں آئیں۔ تجارت اور پیداوار کے نئے مواقع کا آغاز، غیر ملکی فوجوں کی طرف سے سوچنے کے بعد، مقامی معیشت کی ترقی میں معاونت فراہم کی۔ بہت سے آئس لینڈ کے لوگوں نے نئے ہنر اور علم حاصل کیے، جو ملک کی ترقی کی بنیاد بن گئے۔
علاوہ ازیں، جنگ نے آئس لینڈیوں کی سیاسی بیداری میں بھی تبدیلیاں پیدا کیں۔ لوگوں نے خود مختاری اور خود حکمرانی کی اہمیت کو سمجھنا شروع کیا۔ یہ فہم جنگ کے بعد خود مختاری کے حصول کی جدوجہد اور جدید آئس لینڈ کی ریاست کی تشکیل میں ایک کلیدی عنصر بن گیا۔
آئس لینڈ نے دوسری جنگ عظیم کے دوران بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کا سامنا کیا، جو اس کے مستقبل پر اثر انداز ہو گئیں۔ اتحادی ممالک کی طرف سے قبضہ، اقتصادی ترقی اور سماجی ڈھانچے میں تبدیلی نے نئی آئس لینڈی شناخت کو تشکیل دیا۔ جنگ نے آئس لینڈیوں کی خود مختار بننے کی خواہش کی توثیق میں بھی کردار ادا کیا، اور ایک خود مختار ریاست کی تشکیل کی کوششوں میں یہ تجربہ ایک اہم قدم ثابت ہوا۔