میانمار میں فوجی ڈکٹیٹرشپ ایک پیچیدہ اور متنوع مظہر ہے، جس کی جڑیں نوآبادیاتی ماضی میں ہیں اور جو موجودہ دور پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ 1948 میں آزادی حاصل کرنے کے بعد سے، ملک نے فوجی حکومتوں، تنازعات اور جمہوریت کی کوششوں کے کئی مراحل سے گزرے ہیں۔ اس مضمون میں ہم میانمار میں فوجی ڈکٹیٹرشپ کے آغاز، اہم واقعات اور نتائج کا جائزہ لیں گے، اور اس کے شہریوں کی زندگی اور بین الاقوامی تعلقات پر اثرات کو بھی دیکھیں گے۔
میانمار، جسے پہلے برما کے نام سے جانا جاتا تھا، 1948 میں برطانوی نوآبادیاتی حکمرانی کے سو سال سے زیادہ کے بعد ایک آزاد ریاست بن گیا۔ آزادی کا خیرمقدم جمہوری ترقی اور خوشحالی کی امید کے ساتھ کیا گیا، لیکن ملک جلد ہی اندرونی تنازعات، نسلی کشیدگیوں اور سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوا۔ ان عوامل نے فوجی مداخلت کے لیے زمین فراہم کی۔
میانمار میں پہلی فوجی حکومت 1962 میں شروع ہوئی، جب جنرل نی ون نے اقتدار پر قبضہ کرلیا اور جمہوری طور پر منتخب حکومت کو بے دخل کردیا۔ اس نے برمی سوشیالزم کی نظریے پر مبنی ایک جماعتی نظام قائم کیا، جو اپوزیشن کے خلاف جبر اور شہری آزادیوں کی پابندیاں عائد کرنے کی بنیاد بنی۔
جنرل نی ون نے فوجی حکومت کی قیادت کی اور اہم معاشی شعبوں، بشمول بینک، تجارت اور زراعت کی قومی نوعیت کے لیے پالیسی اپنائی۔ اس پالیسی کی وجہ سے معیشت میں نمایاں تنزلی اور عوام کی زندگی کی سطح میں خرابی آئی۔ نسلی تنازعات کی بنا پر اندرونی تنازعات بڑھتے گئے۔
1988 میں نی ون کے نظام کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے، جنہیں "8888" کے نام سے جانا جاتا ہے، جو فوج کی طرف سے بے دردی سے دبائے گئے۔ ان واقعات کے نتیجے میں نی ون کا نظام چلا گیا، لیکن اس کی جگہ ایک نئی فوجی حکومت نے لے لی، جس نے اپوزیشن کے خلاف سختی کی پالیسی جاری رکھی۔
1988 میں مظاہروں کے دبانے کے بعد، فوجی قیادت نے ریاستی امن اور ترقی کی کونسل (SPDC) قائم کی، جس نے ملک کی حکومت سنبھالی۔ یہ نظام اپوزیشن کے خلاف دباؤ جاری رکھتا رہا اور میڈیا پر کنٹرول اور آزادی اظہار کو محدود کرتا رہا۔ 1990 میں انتخابات ہوئے، جن میں "قومی لیگ برائے جمہوریت" (NLD) نے کامیابی حاصل کی، جس کی قیادت آنگ سان سو چھی کر رہی تھیں۔ تاہم، فوجی نے انتخابات کے نتائج تسلیم نہیں کیے اور اقتدار برقرار رکھا۔
1990 کی دہائی میں یہ نظام بین الاقوامی تنہائی کی حالت میں چلتا رہا۔ ملک کو مغرب کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں اور پابندیوں کے باعث اقتصادی مسائل کا سامنا کرنا پڑا، جس کی وجہ سے شہریوں کی زندگی کے حالات خراب ہوئے۔ اس دوران، نظام نے دباؤ کے طریقے اپنائے اور جمہوری طور پر منتخب نمائندوں کو اقتدار میں آنے کی اجازت نہیں دی۔
2010 میں شدید سیاسی اصلاحات کا آغاز ہوا، جسے جمہوریت کی طرف ایک قدم سمجھا گیا۔ انتخابی مہم کے ذریعے نئی حکومت نے جزوی انتخابات منعقد کیے، جس میں SPDC کے اراکین پر مشتمل حکومت قائم ہوئی۔ ان اصلاحات کا استقبال ملک کے اندر اور باہر محتاط امید کے ساتھ کیا گیا۔
2015 میں زیادہ آزاد انتخابات ہوئے، جن میں NLD نے پھر سے کامیابی حاصل کی۔ آنگ سان سو چھی ملک کی عملی رہنما بن گئیں۔ تاہم، اصلاحات کے باوجود، انسانی حقوق کے مسائل اور اقلیتی نسلی گروہوں کے ساتھ سلوک اب بھی حل طلب رہے۔
1 فروری 2021 کو ایک نیا فوجی انقلاب ہوا، جس نے ملک کو پھر سے فوج کے کنٹرول میں لے لیا۔ فوج نے آنگ سان سو چھی اور NLD کے دیگر رہنماؤں کو گرفتار کرلیا، اور 2020 کے انتخابات میں دھوکہ دہی کا الزام لگایا، جس میں NLD نے دوبارہ واضح طور پر فتح حاصل کی تھی۔ اس انقلاب نے بڑے پیمانے پر مظاہروں اور عوامی بغاوت کو جنم دیا، جو جاری ہے۔
فوجی حکام نے ہنگامی حالت کا اعلان کیا اور مظاہروں کو بے دردی سے دبانے کا آغاز کیا۔ دباؤ کے جواب میں عوام نے ایک مزاحمتی تحریک کا آغاز کیا، جس میں پرامن مظاہروں کے علاوہ مسلح اقدامات بھی شامل ہیں۔ بین الاقوامی برادری نے فوج کے اقدامات کی مذمت کی اور اس نظام کے خلاف پابندیاں عائد کرنا شروع کردیں۔
میانمار میں فوجی ڈکٹیٹرشپ نے انسانی بنیادوں پر مہلک نتائج پیدا کیے ہیں۔ ہزاروں لوگ ہلاک یا گرفتار ہوچکے ہیں، اور بہت سے اپنے گھروں سے بے گھر ہوچکے ہیں۔ اندرونی تنازعات اور روہنگیا سمیت اقلیتی نسلی گروہوں کی مشکلات جاری ہیں اور یہ بین الاقوامی سطح پر مذمت کا باعث بن رہی ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں انسانی حقوق کی متعدد خلاف ورزیوں کی اطلاعات دیتی ہیں، جن میں غیر قانونی گرفتاری، تشدد اور جارحیت شامل ہیں۔ میانمار میں انسانی حقوق کی صورتحال انتہائی کشیدہ بنی ہوئی ہے، اور کارکن انصاف اور شہریوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔
میانمار کا مستقبل غیر یقینی بنا ہوا ہے۔ جمہوریت کی بحالی کے تمام اقدامات کے باوجود، فوجی ڈکٹیٹرشپ ملک کے پرامن وجود اور ترقی کے لیے خطرہ بنی ہوئی ہے۔ میانمار کے عوام نظام کے خلاف مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہیں، اور ملک میں انصاف اور آزادی کے حصول کی جدوجہد کے جذبات بڑھ رہے ہیں۔
بہت سے ماہرین یہ بات زور دے کر کہتے ہیں کہ پائیدار امن کے حصول کے لیے سیاسی گفت و شنید کی ضرورت ہے اور تمام فریقین کی شمولیت ہونی چاہیے۔ یہ ضروری ہے کہ بین الاقوامی برادری فوجی قیادت پر دباؤ ڈالنا جاری رکھے اور میانمار کے عوام کی جمہوریت اور انسانی حقوق کے حصول میں مدد کرے۔
میانمار میں فوجی ڈکٹیٹرشپ ملک کی تاریخ کا ایک پیچیدہ اور المیہ باب ہے۔ عوام کی آزادی اور انسانی حقوق کی کوششیں اب بھی اہم بنی ہوئی ہیں، اور تمام رکاوٹوں کے باوجود، میانمار کے لوگ بہتر مستقبل کی امید نہیں چھوڑتے۔ پُرامن مظاہروں کے خلاف طاقت کے استعمال اور اپوزیشن کے suppression سے لوگوں کی عزم میں مزید اضافہ ہوتا ہے ان کی جمہوری اقدار اور سماجی انصاف کے لیے جدوجہد میں۔