میانمار، جسے برما بھی کہا جاتا ہے، کی آزادی کی جدوجہد ایک پیچیدہ اور کئی جہتی عمل تھا جو کئی دہائیوں تک جاری رہا۔ یہ تحریک برطانوی سلطنت کی نوآبادیاتی حکومت کے جواب میں ابھری اور 1948 میں آزادی حاصل ہونے تک جاری رہی۔ اس مضمون میں ملک میں قوم پرستی کے جذبات کی تشکیل پر اثر انداز ہونے والے اہم مراحل اور واقعات کا جائزہ لیا جائے گا۔
بیسویں صدی کے آغاز تک میانمار میں مقامی آبادی میں نوآبادیاتی حکومت کی وجہ سے بڑے پیمانے پر عدم اطمینان پیدا ہوا۔ برطانویوں نے تین انگلو-برمی جنگوں کے نتیجے میں ملک پر کنٹرول قائم کیا اور اقتصادی فوائد نکالنے کی پالیسی اپنائی، جس کی وجہ سے سماجی اور اقتصادی عدم استحکام پیدا ہوا۔
نوآبادیاتی حکومت کا نظام مقامی آبادی کے سیاسی حقوق کو محدود کرتا تھا اور "تقسیم اور حکومت" کی پالیسی کا استعمال کرتا تھا، جس سے نسلی اور مذہبی اختلافات کو بڑھایا جاتا تھا۔ یہ عوامل قوم پرستی کے جذبات کی نشوونما میں مددگار ثابت ہوئے، جو پہلی عالمی جنگ کے بعد خاص طور پر نمایاں ہو گئے۔
پہلی عالمی جنگ کے بعد میانمار میں پہلی مرتبہ منظم قوم پرستی کی تحریکیں ابھریں۔ 1920 میں برمی قومی انجمن قائم کی گئی، جو برمیوں کے حقوق اور خود مختاری کے لیے کام کر رہی تھی۔ 1930 کی دہائی میں تحریک مزید منظم ہو گئی، اور نئے رہنما، جیسے آنگ سان، سامنے آئے جو آزادی کی جدوجہد میں اہم کردار ادا کرتے رہے۔
1937 میں برما کو ایک الگ نوآبادی کے طور پر الگ کر دیا گیا، اور مقامی قوم پرستوں نے خود مختاری بڑھانے کا مطالبہ شروع کر دیا۔ یہ دور نئی سیاسی جماعتوں اور عوامی تنظیموں، جیسے برمی ورکنگ پارٹی، کے قیام کا وقت بن گیا۔
دوسری عالمی جنگ نے میانمار کی تاریخ میں ایک نئے مرحلے کا آغاز کیا۔ 1942 میں جاپان نے ملک پر قبضہ کر لیا، جس نے طاقت کے توازن کو تبدیل کیا اور مقامی قوم پرستوں کو فعال ہونے کا موقع فراہم کیا۔ جاپانیوں نے خود کو برطانوی نوآبادیاتی حکومت سے آزادی کے علمبردار کے طور پر پیش کیا اور مقامی قوم پرستی کی تحریکوں کا استعمال کرنے کی کوشش کی۔
لیکن جلد ہی مقامی آبادی نے یہ سمجھ لیا کہ جاپانی قبضہ مطلوبہ آزادی فراہم نہیں کر سکا، اور 1944 تک جاپانی قبضہ داروں کے خلاف مسلح بغاوتیں شروع ہو گئیں۔ آنگ سان اور ان کے حامیوں نے ایک اینٹی-Colonial تحریک کا آغاز کیا، جو اتحادیوں کے ساتھ مل کر جاپانی انتظامیہ کے خلاف لڑ رہی تھی۔
1945 میں جنگ کے خاتمے کے بعد برطانوی افواج دوبارہ میانمار واپس آئیں، لیکن ملک کی صورتحال میں نمایاں تبدیلی آئی۔ مقامی لوگوں نے اپنی طاقت اور منظم جدوجہد کی صلاحیت کو جان لیا اور فوری آزادی کا مطالبہ کرنے لگے۔ 1947 میں برطانوی حکومت اور مقامی رہنماؤں کے درمیان مذاکرات ہوئے، جس کے نتیجے میں میانمار کو خود مختاری دینے کا معاہدہ ہوا۔
اسی سال آنگ سان اور برطانوی حکومت کے درمیان آزادی فراہم کرنے کے لیے ایک معاہدہ پر دستخط کیے گئے۔ تاہم 1947 میں آنگ سان کے قتل کے نتیجے میں داخلی تنازعات نے آزادی کے حصول کے عمل کو پیچیدہ بنا دیا۔
4 جنوری 1948 کو میانمار نے سرکاری طور پر برطانیہ سے آزادی حاصل کی۔ یہ دن ان لوگوں کے لیے خاص تھا جو طویل عرصے سے اپنے حقوق کے لیے لڑ رہے تھے۔ تاہم آزادی نے ملک میں فوری سکون فراہم نہیں کیا۔ مختلف نسلی گروہوں اور حکومت کے درمیان تنازعات مزید بڑھتے رہے۔
بعد میں نسلی اقلیتوں کی خود مختاری کے حصول کے لیے داخلی مسلح تنازعات ابھرے۔ بہت سے گروہ، جیسے شان اور کارن، اپنے حقوق کے لیے لڑتے رہے، جو کہ طویل مدتی خانہ جنگی کی طرف لے گیا، جو آج بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔
میانمار کی آزادی کی جدوجہد ملک کی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل بنی، جس نے اس کی جدید شناخت کو تشکیل دیا۔ بیسویں صدی کے آغاز میں ابھرتی ہوئی قوم پرستی کی تحریکوں نے ملک کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی زندگی پر اثر انداز کیا۔ پیچیدہ داخلی تنازعات کے باوجود، میانمار کا عوام امن اور استحکام کی تلاش میں ہے، اپنے آباؤ اجداد کی بہادری اور قربانی کی یاد کرتے ہوئے جو آزادی کے لیے لڑے۔
میانمار کی آزادی کی جدوجہد کا ورثہ نئی نسل کو متاثر کرتا رہتا ہے۔ رہنما، جیسے آنگ سان، امید اور آزادی کی آرزو کے علامت بنے ہوئے ہیں۔ آج ملک میں تاریخ اور ثقافت کے تئیں دلچسپی میں اضافہ نظر آتا ہے، جو قومی شناخت اور مختلف نسلی گروہوں کے درمیان باہمی سمجھ کی مضبوطی میں مدد دیتا ہے۔
آخر میں، میانمار کی آزادی کی جدوجہد مستقبل کی نسلوں کے لیے ایک اہم سبق ہے۔ یہ ظاہر کرتی ہے کہ قوم کی استقامت اور اتحاد کسی بھی رکاوٹ کو آزادی اور انصاف کے حصول کے راستے میں عبور کر سکتے ہیں۔