تاریخی انسائیکلوپیڈیا

موزمبیق میں خانہ جنگی

تعارف

موزمبیق میں خانہ جنگی (1977–1992) افریقہ کے براعظم پر سب سے تباہ کن تنازعات میں سے ایک بن گئی، جس نے ملک کی تاریخ پر ناقابل فراموش اثرات چھوڑے۔ آزادی کا اعلان ہونے کے بعد فوراً شروع ہونے والی یہ جنگ موزمبیق کے تمام علاقوں میں پھیل گئی، جس نے معیشت، بنیادی ڈھانچے اور سماجی ترقی کو شدید نقصان پہنچایا۔ یہ تنازعہ شدید سیاسی، سماجی اور اقتصادی تضادات کی وجہ سے پیدا ہوا جو پرتگالی کالونی کے خاتمے کے بعد ابھرے۔ جنگ نے برباد شدہ شہروں، ٹوٹے ہوئے مقدروں، اور گہرے زخموں کے نشانات چھوڑے، جنہیں ملک آج بھی بحال کر رہا ہے۔

جنگ کے اسباب

موزمبیق میں خانہ جنگی کے اسباب ان پیچیدہ سماجی اور سیاسی حالات میں پوشیدہ ہیں جو آزادی حاصل ہونے کے بعد پیدا ہوئے۔ 1975 میں آزادی کی جنگ ختم ہونے کے بعد، ملک میں طاقت فریلیمو (موزمبیق کی آزادی کا محاذ) کی طرف چلی گئی، جو سوشلسٹ نظریات کی پیروکار تھی اور سوشلسٹ ریاست کی تعمیر کا عزم کیا۔ سوشلسٹ اصلاحات، قومی ملکیت، مذہبی آزادی کی حدود، اور نجی ملکیت کی پامالی نے آبادی کے بڑے حصے، خاص طور پر دیہی علاقوں میں، عدم اطمینان پیدا کیا۔

فریلیمو کی پالیسی کے جواب میں مزاحمتی گروہ رینامو (موزمبیق قومی مزاحمت) ابھرا، جو سوشلسٹ اصلاحات کے خلاف تھا۔ ابتدا میں رینامو کو روڈییشیا (اب زیمبابوے) کی حکومت اور بعد میں جنوبی افریقی جمہوریہ کی حمایت حاصل تھی، جو فریلیمو کی طاقت کو کمزور کرنے کے لیے کوشاں تھے، جو اپارتھائڈ اور اقتصادی کالونیز کے خلاف تحریکوں کی حمایت کر رہا تھا۔ رینامو نے دیہی علاقوں میں حمایت حاصل کی، جہاں لوگ فریلیمو کی اقتصادی پالیسیوں اور جبر کے طریقوں سے ناخوش تھے۔

تنازع کے آغاز

تنازع 1977 میں شروع ہوا، جب رینامو کی مسلح جماعتوں نے حکومتی مراکز اور بنیادی ڈھانچے پر حملے شروع کیے۔ رینامو نے پارٹیزن جنگ کی حکمت عملی اپنائی، ریلوے، مواصلات کے راستوں پر تخریب کاری کی، اور شہری آبادی اور انسانی امدادی مشنوں پر حملے کیے۔ یہ کارروائیاں فریلیمو کی حکومت کی طاقت کو کمزور کرنے اور اہم علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنے کے خلاف تھیں۔

رینامو کے حملوں کے جواب میں، فریلیمو کی حکومت نے بغاوت کو دبانے کے لیے کارروائیاں شروع کیں، فوج اور خفیہ ایجنسیوں کو مخالفین کے خلاف بھیجا۔ تاہم، محدود فوجی وسائل اور کمزور معیشت نے حکومت کی صورتحال پر کنٹرول کرنے کی کوششوں میں مشکلات پیدا کیں۔ ہر حال میں، تنازع ایک طویل اور تھکا دینے والے مظہر میں تبدیل ہو گیا، جس کے نتیجے میں شہری آبادی میں نمایاں نقصان ہوا اور دیہی و شہری آبادی کی تباہی ہوئی۔

جنگ کا بڑھتا ہوا زور اور انسانی بحران

موزمبیق میں خانہ جنگی کے دوران ایک سنگین انسانی بحران پیدا ہوا۔ لڑائیوں، زمین کی جلی ہوئی حکمت عملی، شہری آبادی کی قلیل کا جبری منتقلی اور بنیادی ڈھانچے کی تباہی نے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا۔ تقریباً ایک ملین موزمبیقی اس تنازعے میں ہلاک ہوئے، جب کہ لاکھوں افراد پناہ گزین بن گئے، یا تو قریبی ممالک میں فرار ہو کر یا ملک کے اندر ہی منتقل ہو کر۔

ملک کی معیشت ایک بڑے بحران میں تھی: زراعت کی تباہی، بہت سی کاروبار بند ہو گئے، اور غذائی قلت کا سامنا تھا۔ رینامو کے مسلح گروہ سڑکوں اور اہم زرعی علاقوں کو بلاک کر رہے تھے، جس کے باعث قحط اور بیماریوں کی صورت حال پیدا ہو گئی۔ بین الاقوامی انسانی تنظیمیں مدد کرنے کی کوششیں کر رہی تھیں، لیکن مسلسل حملے اور غیر محفوظ حالات نے متاثرہ علاقوں میں غذا اور ادویات کی ترسیل کو مشکل بنا دیا۔

بین الاقوامی رد عمل اور سفارتی کوششیں

بین الاقوامی برادری نے موزمبیق میں خانہ جنگی کے تباہ کن نتائج کے دیکھتے ہوئے، تنازع کا پرامن حل نکالنے پر زور دیا۔ اقوام متحدہ اور افریقی اتحاد نے فریلیمو اور رینامو کے درمیان مذاکرات کے لیے فعال طور پر سرگرمی دکھائی۔ 1980 کے آخر میں، سرد جنگ کے خاتمے اور بین الاقوامی سیاست میں تبدیلیوں کے ساتھ، جنوبی افریقی جمہوریہ نے رینامو کی حمایت ختم کر دی، جو امن عمل شروع کرنے کے لیے موافق حالات پیدا کیا۔

1990 میں فریلیمو اور رینامو کے نمائندوں کے درمیان پہلی سنجیدہ بات چیت شروع ہوئی، جو اقوام متحدہ اور اٹلی کی حمایت سے ہوئی۔ 1992 میں طویل مذاکرات کے بعد، رومی امن معاہدے پر دستخط ہوا، جس نے خانہ جنگی کا خاتمہ کیا۔ اس معاہدے میں رینامو کے جنگجوؤں کی بے ہتھیاری، اس کے لوگوں کا ملکی سیاسی زندگی میں ادغام، اور کثیر جماعتی انتخابات کا انعقاد شامل تھا۔

رومی امن معاہدے پر دستخط

4 اکتوبر 1992 کو دستخط ہونے والا رومی امن معاہدہ موزمبیق کی تاریخ میں ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔ معاہدے کی شرائط کے مطابق، رینامو نے مسلح جدوجہد ختم کرنے اور ایک سیاسی جماعت میں تبدیل ہونے پر رضا مندی ظاہر کی۔ ایک جمہوری عمل شروع ہوا، اور دونوں طرف کے سابق جنگجوؤں نے سماج میں دوبارہ انضمام کا عمل شروع کیا۔

1994 میں موزمبیق میں پہلی بار کثیر جماعتی انتخابات ہوئے، جس میں فریلیمو اور رینامو دونوں نے حصہ لیا۔ یہ انتخابات ملک کی سیاسی تاریخ میں ایک نئے دور کا آغاز بنے، جنہوں نے جمہوری عمل اور استحکام فراہم کیا۔ اگرچہ تناؤ اور تنازعات برقرار رہے، انتخابات شائستگی سے ہوئے، اور ملک نے بعد از تصادم بحالی کے راستے پر قدم رکھا۔

جنگ کے نتائج

خانہ جنگی نے موزمبیقی معاشرے اور معیشت پر گہرے زخم چھوڑ دیے۔ تنازعے کے نتیجے میں زیادہ تر بنیادی ڈھانچے کی تباہی ہوئی، اور معیشت زوال کی حالت میں نظر آئی۔ زراعت، جو آبادی کے لیے روزگار اور آمدن کا بنیادی ذریعہ تھی، تقریباً مکمل طور پر تباہ ہو گئی، جس سے بھوک اور غربت کا مسئلہ پیدا ہوا۔

بعد از تصادم بحالی نے значا کے حجم کی تقاضا کی، اور عالمی مدد بھی اس میں شامل تھی۔ اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں کے پروگراموں نے موزمبیق کو زراعت کی بحالی، صحت کی بہتری اور تعلیم تک رسائی فراہم کرنے میں مدد کی۔ تاہم، بحالی کا عمل طویل اور مشکل رہا، اور جنگ کے اثرات کئی سالوں تک محسوس ہوتے رہے۔

معاف کرنے اور مصالحت

بعد از تصادم کے دور میں، مختلف گروپوں کے بیچ اعتماد کی بحالی اور مصالحت ایک اہم جزو بن گیا۔ موزمبیق کی حکومت نے سابق فوجیوں کی بحالی، جنگ سے متاثرہ خاندانوں کی مدد، اور عوام کی یکجہتی کی کوششوں کے لیے تعلیمی منصوبے شروع کیے۔ بہت سے سابق رینامو جنگجوؤں کو ملک کی سیاسی اور اقتصادی زندگی میں شامل کیا گیا، جس نے تناؤ کی سطح کم کرنے میں مدد کی۔

یہ کوششیں، اگرچہ کچھ مشکلات کے ساتھ، پرامن بقائے باہمی کی بحالی کی طرف ایک اہم قدم ثابت ہوئیں۔ مختلف جماعتوں کے درمیان مصالحت بین الاقوامی تنظیموں اور انسانی حقوق کے گروپوں کی حمایت کے ساتھ ممکن ہوئی، جس نے قومی شناخت اور اتحاد کو مضبوط کرنے کی حوصلہ افزائی کی۔

نتیجہ

موزمبیق میں خانہ جنگی نے ملک اور اس کی عوام کی تاریخ پر گہرا اثر چھوڑا۔ اس تنازعے سے حاصل کردہ سبق نہ صرف موزمبیق کے لیے بلکہ دیگر ممالک کے لیے بھی اہم ہیں، جو اسی طرح کی المیوں سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ امن عمل اور جنگ کے بعد کی بحالی یہ ظاہر کرتی ہے کہ سب سے مشکل حالات میں بھی مصالحت اور نئے معاشرے کی تشکیل کے راستے تلاش کیے جا سکتے ہیں۔ آج موزمبیق ترقی کی راہوں پر گامزن ہے، اپنے غلطیوں سے سیکھتا ہوا اور ایک روشن مستقبل کی طرف بڑھ رہا ہے۔

بانٹنا:

Facebook Twitter LinkedIn WhatsApp Telegram Reddit email

دیگر مضامین: