تاریخی انسائیکلوپیڈیا

بیسویں صدی میں پیرو

بیسویں صدی پیرو کے لیے بڑی تبدیلیوں کا دور تھا، جس میں متعدد ایسے واقعات ہوئے جنہوں نے ملک کی داخلی اور خارجی سیاست کو متعین کیا۔ سیاسی عدم استحکام، سماجی تحریکیں، اقتصادی بحران اور ثقافتی تبدیلیاں — یہ سب پیرو کی تاریخ کے سب سے متحرک دوروں میں سے ایک بن گیا۔

سیاسی عدم استحکام اور بغاوتیں

صدی کے آغاز سے ہی پیرو کئی سیاسی بحرانوں کا سامنا کرتا رہا۔ 1919 میں ہوزے پالیسیوک صدر بنے، لیکن ان کی حکومت زیادہ دیر تک نہیں چل سکی کیونکہ عوام میں بڑھتا ہوا عدم اطمینان تھا۔ 1930 میں ایک فوجی بغاوت ہوئی، جس کے نتیجے میں لوئس ایم. سانچز سیررو نے اقتدار سنبھال لیا۔ اس دور میں آمرانہ طرز اور اپوزیشن کے خلاف قید و بند کی صورت حال تھی۔

1931 کا سال ایک نئے دور کی شروعات تھا، جب ملک میں شہری حکومت آئی جس کے صدر آگوستو لیگیا تھے۔ انہوں نے کئی اصلاحات کیں، لیکن ان کا دور بھی بدعنوانی اور اقتصادی مشکلات کی وجہ سے ختم ہوا، جس نے 1933 میں دوبارہ فوجی بغاوت کی راہ ہموار کی۔ اس طرح، دوسری جنگ عظیم سے پہلے کا دور عدم استحکام اور اقتدار کی جدوجہد سے بھرا ہوا تھا۔

اقتصادی تبدیلیاں اور بڑی کساد بازاری کا اثر

پیرو کی اقتصادی حالت 1929 میں بڑی کساد بازاری کے آغاز کے ساتھ کافی بگڑ گئی۔ اہم شعبے، جیسے زراعت اور معدنیات کی پیداوار، قیمتوں میں کمی اور طلب میں کمی کا سامنا کر رہے تھے۔ اس کا نتیجہ بے روزگاری اور غربت کے شکل میں نکلا، جس نے سماجی بے چینی کو مزید بڑھایا۔

بحران کے جواب میں لیگیا کی حکومت نے زراعت کی حمایت اور صنعت کی ترقی کے لیے اقتصادی اصلاحات شروع کیں۔ نئی ملازمتیں پیدا ہوئیں، لیکن مستقل سیاسی عدم استحکام کی حالت میں یہ اقدامات مستحکم نتائج نہیں دے سکے۔

سماجی تحریکیں اور حقوق کے لیے جدوجہد

بیسویں صدی پیرو میں بڑھتے سماجی عدم اطمینان کا بھی مشاہدہ کرتی رہی۔ مزدور، کسان اور انڈین تحریکیں زندگی کے سخت حالات اور کام کی وجہ سے منظم ہونے لگیں۔ 1945 میں پیرو کے انڈینوں کا کانگریس ہوا، جو کہ مقامی آبادی کے حقوق کی تسلیم کی جانب ایک اہم اقدام تھا۔

1960 کے دہائی میں زمین کی اصلاح کے لیے تحریکیں مقبول ہونے لگیں، اور حکومت نے زمین کی تقسیم کے اقدامات شروع کیے۔ اس کی وجہ سے بڑے زمینی مالکان کی جانب سے احتجاج ہوا، جس نے سماج میں مزید تناؤ پیدا کیا۔

فوجی ڈکٹیٹرشپ اور انقلاب

1968 میں پیرو میں ایک نئی فوجی بغاوت ہوئی، جس کے نتیجے میں جنرل آلبرٹو فوجیموری نے اقتدار سنبھالا۔ ان کی حکومت اصلاحات کے ایک دور کی نشاندہی کرتی ہے، جو اقتصادی حالات کو بہتر کرنے کے لیے شروع کی گئی تھیں۔ انہوں نے ایک جارحانہ اقتصادی پالیسی اپنائی اور مہنگائی میں نمایاں کمی حاصل کی۔ تاہم یہ اصلاحات بھی قید و بند اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ساتھ تھیں۔

1980 کی دہائی کے آغاز تک پیرو کو دہشت گرد گروہوں، جیسے "سینڈرلو لومی نوسو" سے خطرات کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ تنظیم اپنی مقاصد کے حصول کے لیے تشدد کا استعمال کرتی تھی، جس نے حکومت کی جانب سے بڑے پیمانے پر قید و بند کا نتیجہ نکالا۔ سیاسی صورتحال بگڑ گئی، اور ملک ایک شہری جنگ کی حالت میں چلا گیا، جس نے ہزاروں جانیں لے لیں۔

تنازعہ اور اس کے نتائج

پیرو میں تنازعہ 1980 کی دہائی میں اپنی عروج پر پہنچ گیا۔ پیچیدہ اقتصادی حالات، بدعنوانی، اور غیر مؤثر حکمرانی نے سماجی بکھراؤ اور عوام میں بے چینی پیدا کردی۔ نئے سیاسی تحریکوں جیسی "بائیں محاذ" کی تشکیل نے عوامی شعور میں تبدیلی کی توقع پیدا کی۔

1990 کی دہائی کے آخر تک حکومت نے امن بحالی اور انتخابات کے انعقاد کے پروگرام شروع کیے، جس نے سیاسی صورتحال کی معمول پر آوری میں مدد دی۔ اس نے جمہوریت کی طرف واپسی اور مصالحے کے عمل کا آغاز کیا۔

جمہوری نظام کی طرف منتقلی

2000 میں آلبرٹو فوجیموری بدعنوانی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کے بعد مستعفی ہوگئے۔ یہ واقعہ آمرانہ حکومت کے اختتام اور پیرو کے لیے ایک نئی دور کی شروعات کا نشان تھا۔ ملک نے جمہوری نظام کی طرف واپسی شروع کی، اور 2001 میں انتخابات ہوئے۔ نئے صدر والینٹائن پینیگوا نے اقتصادی بحالی اور اداروں کو مضبوط کرنے کی کوشش کی۔

سماجی و اقتصادی اصلاحات

2000 کی دہائی کے آغاز سے پیرو اپنی قدرتی وسائل اور اقتصادی ترقی کی بدولت سرمایہ کاروں کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ ساختی اصلاحات اور کھلی مارکیٹ کی پالیسی نے اقتصادی ترقی میں مدد دی، تاہم یہ تبدیلیاں بھی سماجی عدم مساوات اور غربت کی صورت حال کی نشاندہی کرتی ہیں، جو کہ عوام کی بڑی تعداد کے لیے مسائل ہیں۔

ثقافتی تبدیلیاں

بیسویں صدی پیرو میں ثقافتی احیاء کا بھی دور بن گئی۔ مقامی ثقافتوں اور روایات کی تحقیق اور بحالی نے نئے فنون، ادب، اور موسیقی کی شکلوں کی تخلیق کی۔ بہت سے فنکاروں اور مصنفین نے اپنی جڑوں کی طرف رجوع کیا، منفرد تخلیقات تخلیق کیں جو ملک کی بھرپور تاریخ کی عکاسی کرتی ہیں۔

اختتام

بیسویں صدی میں پیرو ایک ایسی کہانی ہے جو آزادی، تبدیلیوں، اور سماجی تبدیلیوں کی جدوجہد کی عکاسی کرتی ہے۔ ملک نے سیاسی عدم استحکام سے لے کر اقتصادی بحرانوں تک متعدد امتحانات کا سامنا کیا، لیکن آخرکار یہ ایک جمہوری اور ثقافتی طور پر متنوع سماج کے طور پر دوبارہ زندہ ہوا۔ اس دور کا مطالعہ موجودہ پیرو کی حالت اور دنیا میں اس کی حیثیت کو بہتر طور پر سمجھنے کی اجازت دیتا ہے۔

بانٹنا:

Facebook Twitter LinkedIn WhatsApp Telegram Reddit email

دیگر مضامین: