پہلی عالمی جنگ (1914-1918) نے رومانیہ پر سیاسی اور سماجی دونوں لحاظ سے نمایاں اثر ڈالا۔ رومانیہ کی جنگ میں شمولیت اور اس کے تنازعے میں شامل ہونے کی وجوہات صرف خارجی سیاسی عوامل نہیں بلکہ داخلی حالات بھی تھے، جن میں قومی اتحاد اور علاقائی حصول کی خواہش شامل تھی۔ اس مضمون میں ہم پہلی عالمی جنگ میں رومانیہ کی شمولیت کے اہم مراحل، اس کی فوجی کارروائیاں، اور ملک کے لئے اثرات کا جائزہ لیں گے۔
پہلی عالمی جنگ سے پہلے رومانیہ ایک پیچیدہ سیاسی صورتحال میں تھا۔ ملک بڑے طاقتوں سے گھرا ہوا تھا، اور اس کی پوزیشن غیر مستحکم تھی۔ ملک کے اندر مختلف نسلی گروہوں اور سیاسی جماعتوں کے درمیان بھی تناؤ موجود تھا، جس نے ایک متحدہ حکمت عملی تشکیل دینے میں مشکلات پیدا کیں۔
اس وقت رومانیہ نے غیر جانبداری کی پالیسی اپنائی ہوئی تھی۔ تاہم قومی مفادات اور علاقائی تبدیلیوں کی خواہش نے ملک کی قیادت کو انٹانٹا کے ساتھ جنگ میں شمولیت پر غور کرنے پر مجبور کیا۔ رومانیہ نے ان علاقوں کو واپس حاصل کرنے کی کوشش کی جو اس سے چھین لئے گئے تھے، جن میں ٹرانسلوینیا، بسارابیا اور مالدووا کے کچھ حصے شامل تھے۔
رومانیہ نے 27 اگست 1916 کو پہلی عالمی جنگ میں شمولیت اختیار کی جب اس نے انٹانٹا کے ساتھ ایک اتحادی معاہدہ پر دستخط کیے۔ رومانیہ کی حکومت نے امید کی کہ جنگ میں شمولیت تنازع کو جلد ختم کرے گی اور مطلوبہ علاقوں کو حاصل کرے گی۔ ابتدائی فوجی کارروائیاں کامیاب تھیں، اور رومانیہ کی فوج جلدی سے ٹرانسلوینیا میں داخل ہوئی، کچھ علاقے پر قابض ہو گئی۔
تاہم یہ کامیابی عارضی تھی۔ 1916 کے آخر میں محاذ پر صورتحال نے پلٹا کھا لیا۔ مرکزی طاقتیں، خاص طور پر جرمنی اور آسٹریا-ہنگری، نے جوابی حملہ شروع کیا۔ 1916 کے دسمبر تک رومانیہ کی فوج نے بڑے نقصانات برداشت کیے، اور بخارسٹ قبضے کے خطرے میں آگیا۔ آخر میں رومانیہ کو پیچھے ہٹنے پر مجبور ہونا پڑا اور کنٹرول کرنیوالے علاقوں کو کھو دینا پڑا۔
1917 میں رومانیہ کی ہار ماننے کے قریب تھا۔ مرکزی طاقتوں نے ملک کے بڑی حصے پر قبضہ کر لیا، بشمول دارالحکومت بخارسٹ۔ قبضہ ظالم تھا، اور مقامی آبادی سخت زندگی کی حالتوں سے گزر رہی تھی۔ پھر بھی، مشکلات کے باوجود، رومانیہ کی مزاحمت مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی۔ پارتیزان گروہ اور رومانیہ کی فوج کے باقیات قابضین کے خلاف لڑائی جاری رکھتے رہے۔
فوجی کارروائیوں میں ایک اہم لمحہ یہ تھا کہ رومانیہ نے رومانوی محاذ میں شمولیت اختیار کی، جو انٹانٹا کے کنٹرول میں تھا۔ اس وقت اہم لڑائیاں ہوئیں، جیسے ماریشیشت کے میدان جنگ، جہاں رومانیہ کی فوج نے اپنی ثابت قدمی دکھائی، باوجود اس کے کہ حالات بہت خراب تھے۔ انٹانٹا کے ساتھ فوجی تعاون نے رومانیہ کو ضروری وسائل اور مدد فراہمکی، حالانکہ یہ محدود مقدار میں تھی۔
پہلی عالمی جنگ میں رومانیہ کی شمولیت نے ملک کی معیشت پر سنگین اثرات ڈالے۔ مرکزی طاقتوں کے قبضے نے بہت سی صنعتوں کو تباہ اور ناکارہ کر دیا، اور زراعت میں بھی بڑے نقصانات ہوئے۔ رومانیہ خوراک، وسائل اور کمائی کے ذرائع کی کمی کا شکار رہا، جس کی وجہ سے عوام میں بڑے پیمانے پر ہنگامے ہوئے۔
سماجی تبدیلیاں بھی اس دور کا لازمی حصہ بن گئیں۔ جنگ اور قبضے کی حالتوں میں قومی شناخت کے جذبات بڑھے۔ رومانیہ کی معاشرت نسلی بنیادوں پر تقسیم ہو گئی، اور قومی اقلیتیں اکثر مشکل صورت حال میں تھیں۔ یہ رومانیوں میں قومی خودآگہی کے اضافے کا باعث بنا، جو بعد میں ان کی آزادی اور اتحاد کی جدوجہد پر اثرانداز ہوا۔
پہلی عالمی جنگ کے اختتام کے بعد 1918 میں اور امن معاہدے پر دستخط کے بعد رومانیہ نے کھوئے ہوئے علاقوں میں سے کچھ واپس حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ امن کانفرنسوں کے فیصلوں کے مطابق، رومانیائی زمینیں، جیسے ٹرانسلوینیا، بسارابیا اور بوکووینا، کو رومانیہ کی بادشاہت کے ساتھ ملا دیا گیا۔ یہ عمل جدید رومانیہ کی ریاست کی تشکیل میں ایک اہم مرحلہ ثابت ہوا۔
تاہم، جنگ کے اثرات دو طرفہ تھے۔ ایک جانب، رومانیہ نے اپنے مقاصد حاصل کیے اور اپنی سرحدوں کو مستحکم کیا، لیکن دوسری جانب، جنگ کی وجہ سے پیدا ہونے والے سماجی اور اقتصادی مسائل نے گہرے زخم چھوڑ دیے۔ ملک نے معیشت کی بحالی، زندگی کے حالات کو بہتر کرنے اور مختلف نسلی گروہوں کے انضمام کی ضرورت کا سامنا کیا۔
پہلی عالمی جنگ میں رومانیہ کی داستان جدوجہد، مصائب اور تبدیلیوں کی کہانی ہے۔ ملک کی جنگ میں شمولیت اس کی تاریخ کا ایک اہم مرحلہ تھا، جس نے مستقبل کی ترقی کی سمت متعین کی۔ یہ دور نہ صرف رومانی معاشرے پر گہرا اثر چھوڑ گیا بلکہ رومانی شناخت اور قومیت کے جدید تصور کی تشکیل میں بھی کردار ادا کیا۔ اس دور کا مطالعہ رومانیہ میں موجودہ ترقیاتی عملوں اور اس کی یورپ میں حیثیت کو سمجھنے کے لئے اہم ہے۔