تاریخی انسائیکلوپیڈیا

ہمیں Patreon پر سپورٹ کریں

برطانیہ کے ریاستی نظام کی ارتقا

تعارف

برطانیہ کا ریاستی نظام صدیوں کے دوران ایک اہم تبدیلی سے گزرا ہے، جو سیاسی، سماجی اور معاشی حالات میں تبدیلیوں کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ نظام، جو پارلیمانی جمہوریت اور آئینی بادشاہت پر مشتمل ہے، مختلف تاریخی واقعات اور تحریکوں کے اثرات کے تحت تشکیل پایا۔ اس مضمون میں ہم برطانیہ کے ریاستی نظام کی ترقی کے اہم مراحل اور لمحوں کا جائزہ لیں گے۔

قرون وسطیٰ اور بادشاہت کی تشکیل

پہلے قرون وسطیٰ میں برطانیہ میں اختیار غیر مرکزی تھا، اور کئی مقامی حکام کو کافی خود مختاری حاصل تھی۔ تاہم انگلینڈ کے اتحاد اور 1066 میں نارمن فتح کے ساتھ ایک زیادہ مرکوز بادشاہت کا آغاز ہوا۔ اس وقت بادشاہ اعلیٰ حکمران بن گیا، اور اس کی طاقت فے کے نظام کے ذریعے برقرار رکھی گئی، جہاں زمینوں کی ملکیت اور واسی تعلقات اہمیت رکھتے تھے۔

بارہویں اور تیرہویں صدیوں میں ابتدائی پارلیمانی ادارے قائم ہونے لگے۔ بادشاہوں نے مالیات اور قانون سازی کے امور پر بحث کرنے کے لیے لارڈز اور پادریوں کے اجتماع طلب کرنا شروع کیا، جس نے بعد میں پارلیمنٹ کی تشکیل کی راہ ہموار کی۔

عظیم منشور آزادی

1215 میں عظیم منشور آزادی، جو میگنا کارٹا کے نام سے جانا جاتا ہے، پر دستخط کیے گئے۔ اس دستاویز نے بادشاہ جان بے زمین کی طاقت کو محدود کیا اور شہریوں کے حقوق اور آزادیوں کے تصور کی بنیاد رکھی۔ میگنا کارٹا نے اہم قانونی اصولوں کو مستحکم کیا، جیسے منصفانہ عدالت کا حق اور بے جا گرفتار سے تحفظ، جو برطانیہ میں قانونی ریاست کی مزید ترقی کی بنیاد بنی۔

پارلیمان کی ترقی

وقت کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ ریاستی نظام کا ایک اہم عنصر بنتا گیا۔ چودھویں اور پندرہویں صدیوں میں یہ دو ایوانوں میں تقسیم ہو گیا: ایوانِ بالا اور ایوانِ عام۔ اس ترقی نے قانون سازی کے عمل میں عوام کے نمائندوں کی طاقت میں اضافہ کیا۔ سولہویں اور سترہویں صدیوں میں بادشاہت اور پارلیمنٹ کے درمیان جھگڑا ہوا، جس کی چوٹی انگلینڈ کی خانہ جنگی (1642-1651) تھی۔ اس جنگ اور اس کے نتیجے میں بادشاہ چارلس اول کی 1649 میں پھانسی سے اولیور کروم ویل کی قیادت میں ایک جمہوریت قائم ہوئی۔

بحالی اور حقوق کا بل

کروم ویل کی موت اور 1660 میں بادشاہت کی بحالی کے بعد، بادشاہوں جیسے چارلس دوم اور جیمز دوم کو پارلیمنٹ کی بڑھتی ہوئی ناپسندیدگی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سے 1688 کی شاندار انقلاب ہوئی، جس کے نتیجے میں جیمز دوم کو معزول کر دیا گیا، اور ولیم سوم اور ماریہ دوم نے تخت سنبھالا۔ 1689 میں حقوق کا بل منظور ہوا، جس نے بادشاہی طاقت کو محدود کیا اور پارلیمانی نظام کو مستحکم کیا، بنیادی حقوق اور شہری آزادیوں کو قائم کیا۔

آئینی بادشاہت کی ترقی

اٹھارھویں صدی سے برطانیہ کا ریاستی نظام آئینی بادشاہت کی جانب ترقی کرتا رہا۔ اس دوران کئی اصلاحات کی گئیں جن کا مقصد حق رائے دہی کو بڑھانا اور نمائندگی کو بہتر بنانا تھا۔ صنعتی انقلاب کے نتیجے میں نئے طبقات اور مفاد کے گروہوں کی تشکیل ہوئی، جنہوں نے سیاست میں زیادہ اثر و رسوخ کی ضرورت محسوس کی۔

1832 کا اصلاحاتی قانون رائے دہندگان کی تعداد میں اضافہ کیا، جسے وسط طبقے کو ووٹ کا حق دیا، اور آریسٹوکریسی کے اثرات کو کم کیا۔ اس کے بعد کی اصلاحات 1867 اور 1884 میں بھی حق رائے دہی کو بڑھاتی رہیں، جس کے نتیجے میں بیسویں صدی کے آغاز میں عمومی ووٹنگ کا قیام عمل میں آیا۔

بیسویں صدی اور جدید سیاسی نظام

دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ نے نئے چیلنجز کا سامنا کیا، جیسے کہ غیر کالونائزیشن اور یورپی یونین میں شمولیت۔ بعد از جنگ سماجی اصلاحات نے ایک جامع سماجی تحفظ نظام کی تعمیر میں مدد فراہم کی۔ 1973 میں برطانیہ نے یورپی اقتصادی کمیونٹی کی رکنیت حاصل کی، جس نے ریاستی نظام اور قانونی ڈھانچے میں مزید تبدیلیاں کیں۔

آخری دہائیوں میں، ملک نے قومی شناخت اور خود مختاری کے مسائل کا بھی سامنا کیا۔ اسکاٹ لینڈ، ویلز اور شمالی آئرلینڈ نے خود حکومتی کی نمایاں سطح حاصل کی، جس کے نتیجے میں برطانیہ کے اندر ایک ڈی کنسٹریٹڈ طاقت کے نظام کی تشکیل ہوئی۔

نتیجہ

برطانیہ کے ریاستی نظام کی ارتقا ایک پیچیدہ عمل ہے، جو اہم تاریخی واقعات اور سماجی تبدیلیوں کی عکاسی کرتا ہے۔ مطلق العنان بادشاہت سے جدید پارلیمانیت اور آئینی بادشاہت تک، یہ نظام نئے چیلنجز اور معاشرے کی ضرورتوں کے مطابق خود کو ڈھالتا رہتا ہے۔ یہ حرکیات برطانیہ کو اپنے سیاسی تاریخ اور ریاستی اداروں کے مطالعے کے لیے ایک دلچسپ ملک بناتی ہیں۔

بانٹنا:

Facebook Twitter LinkedIn WhatsApp Telegram Reddit Viber email

دیگر مضامین:

ہمیں Patreon پر سپورٹ کریں