برطانیہ کی ریاستی علامتوں میں کئی عناصر شامل ہیں، جیسے کہ نشان، جھنڈا، قومی نغمہ اور دیگر علامتیں جو قوم اور اس کی تاریخ کی نمائندگی کرتی ہیں۔ یہ علامتیں نہ صرف ملک کی ثقافتی وراثت کی عکاسی کرتی ہیں بلکہ اس کی اقدار اور شناخت کی بھی نمائندگی کرتی ہیں۔ برطانیہ کی ریاستی علامتوں کی تاریخ قدیم زمانے سے شروع ہوتی ہے اور آج تک جاری ہے، مختلف تبدیلیوں اور پروسوطرز سے گزرتی ہے۔
برطانیہ کا نشان، جسے "سلطنت کا نشان" کہا جاتا ہے، کی ایک طویل تاریخ ہے جو وسطی دور تک جاتی ہے۔ یہ ایک ڈھال ہے جو چار حصوں میں تقسیم ہے، ہر ایک حصہ الگ الگ مملکت کی نمائندگی کرتا ہے جو مملکتِ متحدہ کا حصہ ہیں: انگلینڈ، اسکاٹ لینڈ، آئرلینڈ اور ویلز۔ نشان کے مرکز میں ایک شیر ہے - جو انگلینڈ کی علامت ہے، اور ایک یونی ہارنس ہے - جو اسکاٹ لینڈ کی علامت ہے۔ نشان کے بنیادی عناصر کو 1603 میں باقاعدہ بنایا گیا جب بادشاہ جیمز اول نے انگلش اور اسکاٹش تاجوں کو ملایا۔ 1801 میں، برطانیہ اور آئرلینڈ کے انضمام کے بعد، نشان میں ایک نئے عنصر کا اضافہ کیا گیا جو آئرلینڈ کی نمائندگی کرتا ہے۔
برطانیہ کا جھنڈا، جسے "یونیون جیک" کہا جاتا ہے، 1801 میں انگلینڈ، اسکاٹ لینڈ اور آئرلینڈ کے جھنڈوں کے انضمام کے نتیجے میں بنایا گیا۔ یہ گرجا گھر کے مقدس جارج کا کراس، اسکاٹ لینڈ کے مقدس آندریا کا کراس، اور آئرلینڈ کے مقدس پیٹرک کا کراس ملاتا ہے۔ یونیون جیک برطانیہ کا سرکاری جھنڈا بن گیا ہے اور تین قوموں کی اتحاد کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ نہ صرف ریاستی سیاق و سباق میں استعمال ہوتا ہے بلکہ بہت سے ثقافتی اور کھیلوں کے مواقع پر بھی، قومی فخر کی نمائندگی کرتا ہے۔
برطانیہ کا قومی نغمہ "God Save the Queen" (یا "God Save the King"، بادشاہ کی جنس کے لحاظ سے) کی ایک طویل تاریخ ہے جو 18ویں صدی تک جاتی ہے۔یہ نغمہ پہلی بار 1745 میں شائع ہوا اور تب سے یہ قومی شناخت کا نشان بن گیا۔ یہ سرکاری تقریبات، ریاستی جشن اور کھیلوں کے مقابلوں میں استعمال ہوتا ہے۔ مختلف تاریخی دوروں میں، نغمہ مختلف تشریحوں میں گایا گیا، لیکن اس کی بنیادی دھن اور الفاظ وہی رہے ہیں۔ یہ نغمہ بادشاہ اور ملک کے لئے وفاداری کا اظہار کرتا ہے، اور اتحاد اور حب الوطنی کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔
برطانیہ میں کئی جانور ہیں جو ریاست کے علامت بن چکے ہیں۔ شیر، جو اکثر نشانات پر دکھائی دیتا ہے، طاقت اور بہادری کی علامت ہے۔ یونی ہارنس، جو اسکاٹ لینڈ کی نمائندگی کرتا ہے، معصومیت اور پاکیزگی کا خیال پیش کرتا ہے۔ یہ جانور نہ صرف ریاستی علامتوں میں موجود ہیں بلکہ ثقافت، ادب اور فن میں بھی استعمال ہوتے ہیں، برطانوی شناخت کی منفرد نوعیت کو اجاگر کرتے ہیں۔
برطانیہ کی ریاستی علامتوں میں مختلف تمغے اور ایوارڈز بھی شامل ہیں جو بادشاہہ یا دیگر حکام کی طرف سے دیے جاتے ہیں۔ 1917 میں قائم کردہ 'آرڈر آف برٹش ایمپائر' ایک مشہور اعزازی نظام ہے۔ یہ ریاست اور معاشرے کے لئے نمایاں خدمات کے بدلے دیا جاتا ہے۔ ایوارڈز مختلف شعبوں میں کامیابیوں کے لئے دیے جاسکتے ہیں — سائنس سے لے کر فن اور عوامی خدمات تک۔ ایوارڈز کی علامتیں ہر شہری کے ملک کی ترقی میں شراکت کی اہمیت پر زور دیتی ہیں۔
برطانیہ کی ریاستی علامتوں کا ملک اور اس کے شہریوں کی زندگی میں اہم کردار ہے۔ یہ لوگوں کو اکٹھا کرتی ہیں، ان کی قوم کے ساتھ تعلق کی نشاندہی کرتی ہیں اور فخر کا احساس پیدا کرتی ہیں۔ علامتیں جڑنے کے عناصر بنتی ہیں جو ثقافتی روایات اور اقدار کو محفوظ رکھنے میں مدد کرتی ہیں۔ جدید دور میں، جہاں عالمی نوعیت اور انضمام معمول بن رہے ہیں، ریاستی علامتوں کی اہمیت مسلسل بڑھتی جا رہی ہے، جو لوگوں کو اپنی شناخت برقرار رکھنے میں مدد کرتی ہیں۔
پچھلی چند دہائیوں میں، برطانوی علامتوں میں کچھ تبدیلیاں آئی ہیں۔ معاشرے میں کچھ علامتوں کے معنی، ان کی اہمیت اور استعاریت پر بحث چل رہی ہے۔ مثال کے طور پر، برابری اور انصاف کے سوالات میں بڑھتی دلچسپی کے ساتھ، معاشرے کے کچھ نمائندے 'تاریخی' علامتوں پر نظر ثانی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہ نئے مباحثوں کا آغاز کرتا ہے کہ علامتیں جدید معاشرے اور اس کی اقدار کی کس طرح عکاسی کر سکتی ہیں۔
برطانیہ کی ریاستی علامتوں کی تاریخ ایک پیچیدہ اور کئی جہتی عمل ہے، جو صدیوں تک قوم کی ترقی کی عکاسی کرتی ہے۔ نشان، جھنڈا اور قومی نغمہ جیسی علامتیں نہ صرف تاریخی آثار ہیں بلکہ وہ ثقافت کے زندہ عناصر ہیں جو معاشرے پر اثر انداز ہوتے رہتے ہیں۔ ان علامتوں کو سمجھنے سے برطانیہ اور اس کے لوگوں کی تاریخ کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد ملتی ہے، ماضی اور حال کے درمیان مضبوط رشتہ قائم کرتی ہے۔ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ علامتیں صرف ایک تصویر یا دھن نہیں ہیں، بلکہ ایک قوم کی شناخت اور اتحاد کا اظہار ہیں۔