تاریخی انسائیکلوپیڈیا

بیلجیئم کی بادشاہت کا قیام

آزادی کی جدوجہد اور ریاست کے قیام کی تاریخ

بیلجیئم کی بادشاہت کے قیام کی پیشگی حالات

بیلجیئم کی بادشاہت، ایک آزاد ریاست کے طور پر، 19 ویں صدی کے آغاز میں یورپ میں ہونے والی پیچیدہ سیاسی، سماجی اور اقتصادی تبدیلیوں کے نتیجے میں وجود میں آئی۔ اس وقت تک، ان علاقوں پر جو آج بیلجیئم کے طور پر جانے جاتے ہیں، مختلف غیر ملکی طاقتوں کا کنٹرول تھا، جیسے کہ اسپین، آسٹریا اور فرانس۔ نیپولین کی شکست اور 1815 کے ویین کانفرنس کے بعد، یہ علاقے متحدہ نیدر لینڈز کی بادشاہت میں شامل ہو گئے، جس میں شمالی (موجودہ نیدر لینڈز) اور جنوبی نیدر لینڈز (موجودہ بیلجیئم) شامل تھے۔

اتحاد کے باوجود، بادشاہت کے شمالی اور جنوبی حصوں کے درمیان اہم اختلافات موجود تھے۔ جنوبی نیدر لینڈز کیتھولک تھے، جبکہ شمالی علاقوں میں پروٹسٹنٹ عقیدہ رائج تھا۔ اس کے علاوہ، جنوبی علاقوں میں فرانسیسی بولنے والے اشرافیہ کا غلبہ تھا، جبکہ شمال میں ڈچ زبان کی اکثریت تھی۔ یہ اختلافات سماجی اور سیاسی کشیدگی میں اضافے کا باعث بنے، جو بالآخر انقلابی واقعات کی شکل میں سامنے آئے۔

1830 کا بیلجیئم انقلاب

بیلجیئم کی بادشاہت کے قیام میں اہم لمحہ 1830 کا بیلجیئم انقلاب تھا۔ اس بغاوت کا آغاز 25 اگست 1830 کو برسلز میں ہوا، جب "نمیہ از پوتیچی" اوپیرا کے ناظرین سڑکوں پر نکلے اور بادشاہ ولہلم I آف اورنج کی پالیسی کے خلاف احتجاجی مظاہرہ شروع کر دیا، جو متحدہ نیدر لینڈز کے حکمرانی تھے۔ عدم اطمینان کی وجوہات میں اقتصادی مسائل، کیتھولکس کے مذہبی دباؤ اور جنوبی فرانسیسی زبان بولنے والی آبادی کی زبانی امتیاز شامل تھے۔

بغاوت جلد ہی جنوبی نیدر لینڈز کے دوسرے شہروں اور علاقوں میں پھیل گئی، اور جلدمی انقلاب پسندوں اور بادشاہی افواج کے درمیان جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ انقلاب پسندوں نے جنوبی علاقوں کے لیے خود مختاری اور آزادی کا مطالبہ کیا۔ ولہلم I کی کوششوں کے باوجود ملک کو متحد رکھنے میں ناکام رہے، اور 1830 کے اکتوبر میں برسلز اور دیگر رہنما شہروں پر انقلاب پسندوں کا کنٹرول ہو گیا۔

آزادی کا اعلان اور نئے ریاست کا قیام

4 اکتوبر 1830 کو عارضی حکومت نے برسلز میں بیلجیئم کی آزادی کا باقاعدہ اعلان کیا۔ یہ اقدام جنوبی نیدر لینڈز کی اکثریت سے حمایت حاصل کرتا تھا، جو شمالی پروٹسٹنٹ اقوام کی حکمرانی سے آزاد ہونے کے لیے کوشاں تھے۔ نئے ریاست کو ایک اہم چیلنج کا سامنا تھا: اسے ایک آئین تیار کرنا اور ایسا سیاسی نظام بنانا تھا جو آزادی اور استحکام کو یقینی بنائے۔

1831 میں بیلجیئم کا آئین منظور کیا گیا، جو اس وقت یورپ کے سب سے زیادہ لیبرل آئینوں میں سے ایک بن گیا۔ آئین نے بیلجیئم کو ایک آئینی بادشاہی قرار دیا جس میں شہری حقوق اور آزادیوں کی وسیع ضمانت دی گئی۔ اس نے اظہار، مذہب اور پریس کی آزادی فراہم کی، اور ایک دو ایوانی قانون ساز ادارہ کے ساتھ پارلیمانی حکومت کا نظام بنایا۔ اس نے بیلجیئم کو دوسرے یورپی ممالک کے لیے سیاسی اصلاحات کے لیے ایک مثال بنا دیا۔

پہلے بادشاہ کا انتخاب: لیوپولڈ I

نئے ریاست کے لیے ایک اہم سوال بادشاہ کی انتخاب تھا۔ 1831 میں جرمن شہزادہ لیوپولڈ ساکسن-کوبورگ کو تخت پر مدعو کیا گیا، جو پہلے ہی یورپ کی سیاسی حلقوں میں برطانیہ اور فرانس کے بادشاہی گھروں کے ساتھ اپنے تعلقات کے ذریعے معروف تھا۔ انہوں نے پیشکش قبول کی اور 21 جولائی 1831 کو بیلجیئم کے پہلے بادشاہ کے طور پر لیوپولڈ I کے نام سے بادشاہت سنبھالی۔ یہ دن اب قومی تعطیل کے طور پر منایا جاتا ہے - بیلجیئم کی آزادی کا دن۔

لیوپولڈ I نے بیلجیئم کے ایک آزاد ریاست کے طور پر قیام میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے ملک کی سیاسی زندگی میں فعال شرکت کی اور بیلجیئم کی بین الاقوامی حیثیت کو مستحکم کرنے کے لیے اپنے سفارتی روابط کا استعمال کیا۔ ان کی حکومت کے ابتدائی سالوں میں نئے ریاست کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم دلانے اور ممکنہ بیرونی خطرات، خاص طور پر نیدر لینڈز کی جانب سے آزادی کی حفاظت کرنا اہم تھا، جنہوں نے جلد ہی بیلجیئم کی آزادی کو تسلیم نہیں کیا۔

1839 کا لندن معاہدہ

بین الاقوامی طور پر بیلجیئم کی شناخت میں ایک اہم سنگ میل لندن کا 1839 کا معاہدہ تھا۔ اس معاہدے کے تحت نیدر لینڈز نے باقاعدہ طور پر بیلجیئم کی آزادی کو تسلیم کیا۔ اس معاہدے نے نئے ریاست کی سرحدوں کا بھی تعین کیا، جس میں اہم علاقے شامل تھے، جیسے فلامنڈری، والونیا اور برسلز۔ اسی وقت، لیمبرگ اور لکسمبرگ کا ایک حصہ نیدر لینڈز کے کنٹرول میں رہا، جو طویل عرصے تک تنازعات اور جھگڑوں کا موضوع رہا۔

لندن کا معاہدہ بیلجیئم کی بین الاقوامی حیثیت کے لیے اہم تھا۔ آزادی کی شناخت کے علاوہ، بیلجیئم کو ایک غیر جانبدار ریاست کا درجہ ملا، جس کا مطلب یہ تھا کہ اس نے فوجی اتحاد میں شامل ہونے اور بین الاقوامی تنازعات میں نیوٹرلٹی برقرار رکھنے کا عہد کیا۔ اس فیصلے کی حمایت بڑی یورپی طاقتوں نے کی، جیسے کہ برطانیہ، فرانس، آسٹریا، پرشیا اور روس، جس نے بیلجیئم کی کئی سالوں تک استحکام اور تحفظ یقینی بنایا۔

نئے ریاست کی اقتصادی اور سیاسی ترقی

آزادی حاصل کرنے کے بعد بیلجیئم نے جلد ہی ایک صنعتی اور اقتصادی طور پر کامیاب ملک کے طور پر ترقی کرنا شروع کیا۔ اس کی اہم وجہ ترقی یافتہ ٹیکسٹائل صنعت، کوئلے کی کانیں اور ریلوے کی موجودگی تھی۔ بیلجیئم یورپ کے براعظم میں پہلی ملک بنی جو ریلوے تعمیر کرنے لگی، جو معیشت اور تجارت کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کر گئی۔ چند دہائیوں کے اندر، ملک یورپ کے صنعتی مراکز میں سے ایک بن گیا۔

بیلجیئم کا سیاسی نظام بھی ترقی کرتا رہا۔ ملک میں دو جماعتی نظام بنا، جہاں بنیادی سیاسی قوتیں کیتھولکس اور لبرلز تھیں۔ اس کے باوجود، بیلجیئم کی سیاسی زندگی جھگڑوں سے پاک نہیں تھی: مزدور تحریکیں، جو کام کی حالتوں میں بہتری اور حقوق کے اضافے کے لیے کوشاں تھیں، اکثر ہڑتالیں اور مظاہرے کرتی رہیں، اصلاحات کا مطالبہ کرتی رہیں۔

ثقافتی اور لسانی تنوع

بیلجیئم اپنے قیام سے ہی ایک کثیر الثقافتی اور کثیر لسانی آبادی والا ملک رہا۔ اہم نسلی گروہ - فلامنڈز، جو ڈچ زبان بولتے ہیں، اور والونز، جو فرانسیسی بولتے ہیں - اکثر لسانی اور ثقافتی شناخت کے مسائل کا سامنا کرتے ہیں۔ جبکہ فرانسیسی زبان طویل عرصے تک ریاستی اداروں اور تعلیم میں غالب رہی، فلامنڈز کی تحریک بتدریج اپنے حقوق اور ملک میں دونوں زبانوں کی برابری کے لیے کوششیں کرتی رہی۔

ثقافتی تنوع بیلجیئم کی شناخت کا ایک اہم حصہ بن گیا۔ ملک میں ایک بھرپور فنون، ادبیات اور موسیقی کی روایات کو ترقی حاصل ہوئی۔ بیلجیئم نے دنیا کو ایسے فنکاروں کی تشکیل دی، جیسے کہ رینی میگریٹ اور جیمز اینسور، اور مشہور مصنفین اور کمپوزرز بھی۔ اس کے علاوہ، ملک نے یورپی تھیٹر اور فن تعمیر کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔

بانٹنا:

Facebook Twitter LinkedIn WhatsApp Telegram Reddit email

دیگر مضامین: