19ویں صدی میں اقتصادی ترقی اور بین الاقوامی تعلقات
1830 میں آزادی حاصل کرنے کے بعد بلجیئم یورپ کے پہلے ممالک میں سے ایک بن گیا جو تیز صنعتی ترقی کی راہ پر گامزن ہوا۔ 19ویں صدی کی وسط تک ملک یورپ کی بڑی صنعتی طاقتوں میں شامل ہوگیا، کوئلے کے نکالنے اور دھات کاری کی صنعت کی ترقی کے ساتھ ساتھ ریلوے کی تعمیر کے باعث۔ بروسلز اور اینورپن اہم تجارتی اور مالی مراکز بن گئے۔
بین الاقوامی منظرنامے پر بلجیئم نے 1839 کے لندن معاہدے کے تحت سخت نیوٹرلٹی کی پالیسی اپنائی۔ ملک نے یورپی تنازعات میں شرکت سے بچنے کی کوشش کی، لیکن اس نے برطانیہ، فرانس، اور جرمنی جیسے کئی ممالک کے ساتھ فعال تجارتی تعلقات رکھے۔ 19ویں صدی کے آخر میں بلجیئم بھی ایک کالونیل طاقت بن گیا، جو افریقہ میں ایک بڑی سرزمین — آزاد ریاست کانگو پر کنٹرول حاصل کر رہا تھا، جو بادشاہ لیوپولڈ II کے ذاتی کنٹرول میں تھی۔
بلجیئم اور پہلی عالمی جنگ (1914-1918)
اعلان کردہ نیوٹرلٹی کے باوجود، بلجیئم پہلی عالمی جنگ میں 1914 میں شامل ہوگیا جب جرمن افواج نے اس کی سرحدوں کی خلاف ورزی کی۔ جرمن فوج نے بلجیئم کے راستے فرانس میں تیزی سے حملہ کرنے کا ارادہ کیا تھا جسے شلیفین منصوبے کے تحت کیا گیا، جس کے نتیجے میں بلجیئم کی سرزمین پر جنگی کارروائیاں شروع ہوئیں۔ جرمن حملہ 4 اگست 1914 کو شروع ہوا، اور بلجیئم فوج کی مزاحمت، اگرچہ بہادری سے بھری ہوئی، دشمن کو نہیں روک سکی۔
لیاج کے قلعے کی دفاع اور دیگر اسٹریٹجک مقامات نے بلجیئم کے فوجیوں کی طاقت کی نمائش کی، لیکن جلد ہی ملک پر قبضہ کر لیا گیا۔ بادشاہ البرٹ اول قومی مزاحمت کی علامت بن گئے اور اپنی قوم نہیں چھوڑتے، بلکہ فوج کی کمان سنبھالے رکھتے۔ بلجیئم کی جرمن فوج کے ذریعہ قبضے کے دوران شہریوں کے خلاف سختی کے واقعات، شہروں اور دیہاتوں کی تباہی نے دنیا میں ایک شدید غم و غصہ پیدا کر دیا۔
قبضے کے دوران بڑی تعداد میں بلجیئم کے شہریوں کو قریبی ممالک جیسا کہ فرانس اور برطانیہ بھاگنے پر مجبور ہونا پڑا۔ ملک کی معیشت تقریباً تباہ ہو گئی، لیکن اتحادی خصوصاً برطانیہ اور امریکہ کی مدد کی بدولت بلجیئم جنگ کے خاتمے کے بعد بحال ہوگیا۔ 1918 میں آزادی کی بحالی اور 1919 کے ورسال کنفرنس میں شرکت ایک اہم سنگ میل ثابت ہوئی، جہاں بلجیئم فاتح ممالک میں شامل ہوا۔
بین الحربی دور: اقتصادی اور سیاسی چیلنجز
پہلی عالمی جنگ کے بعد بلجیئم کو دھشت گردی اور قبضے کی وجہ سے سنگین اقتصادی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے باوجود، ملک نے اپنی صنعت اور بنیادی ڈھانچے کو تیزی سے بحال کیا، اور اینورپن دوبارہ یورپ کے اہم ترین بندرگاہوں میں شامل ہوگیا۔ تاہم سماجی اور سیاسی صورتحال خاص طور پر مزدور تحریک اور سوشلسٹ خیالات کے اضافے کے ساتھ کشیدہ رہی۔
1921 میں لکسمبرگ کے ساتھ کسٹم یونین کا معاہدہ کیا گیا، جو بلجیئم-لکسمبرگ اقتصادی اتحاد (BLEU) کا آغاز تھا۔ یہ یورپ کی اقتصادی انضمام کی طرف ایک پہلا قدم تھا۔ بلجیئم کی سیاسی زندگی میں لبرلز اور سوشلسٹس کے اثرات بڑھ گئے، جنہوں نے مزدوروں کے حقوق کی توسیع اور سماجی اصلاحات کا مطالبہ کیا۔
تاہم بین الحربی دور میں انتہائی قوم پرست تحریکوں کے بڑھنے کا بھی مشاہدہ ہوا، خاص طور پر فلامش علاقوں میں، جہاں خود مختاری کے لیے آوازیں بلند ہونے لگیں اور سرکاری اداروں میں فلامش زبان کے استعمال پر زور دیا جانے لگا۔ یہ عمل مستقبل میں فلامش اور والون کے درمیان زبان اور ثقافتی تنازعات کی بنیاد بن گیا۔
بلجیئم اور دوسری عالمی جنگ (1939-1945)
دوسری عالمی جنگ کے دوران بلجیئم کو ایک بار پھر جرمنی کی طرف سے خطرے کا سامنا کرنا پڑا۔ 1940 میں جرمن افواج نے بلجیئم میں حملہ کیا، باوجود اس کے کہ ملک نے نیوٹرلٹی کا اعلان کیا ہوا تھا۔ یہ حملہ 10 مئی 1940 کو شروع ہوا، اور 18 دن کے اندر بلجیئم کو ہتھیار ڈالنے پڑے۔ بادشاہ لیوپولڈ III نے قبضے کے باوجود ملک میں رہنے کا فیصلہ کیا، جس سے ان کے زیرنگین لوگوں میں تنازع اور ناپسندیدگی پیدا ہوئی، ساتھ ہی ان کی حکومت جو لندن میں پھنس گئی۔
نازیوں کے ذریعہ بلجیئم کا قبضہ 1944 تک جاری رہا اور اس دوران سختی، یہودیوں کی جبری نقل مکانی، اور لوگوں کی جبری بھرتی کا سامنا کرنا پڑا۔ بلجیئمی مزاحمت نے قبضے والے علاقوں میں متحرک انداز میں کام کیا، تخریب کاری اور اتحادیوں کی حمایت کی۔ ایک مشہور واقعہ 1944 میں آرڈنز کی لڑائی تھا، جب جرمن افواج نے مغربی محاذ پر آخری بڑی حملہ کیا، جو اتحادیوں کی فیصلہ کن مداخلت کے باعث روکا گیا۔
بلجیئم کی آزادی ستمبر 1944 میں شروع ہوئی، جب برطانوی، کینیڈین اور امریکی فوجیں بروسلز اور اینورپن میں داخل ہوئیں۔ سال کے آخر تک ملک کے بڑے حصے کو آزاد کر لیا گیا، لیکن جنگ کے بعد معیشت اور بنیادی ڈھانچے کی بحالی کے لئے بڑے کوششوں کی ضرورت تھی۔ بادشاہ لیوپولڈ III کو 1951 میں قبضہ کرنے کے الزامات کی وجہ سے عہدے سے ہٹا دیا گیا، اور ان کی جگہ ان کے بیٹے بادوان اول نے لے لی۔
جنگ کے بعد کا بلجیئم اور یورپ میں انضمام
دوسری عالمی جنگ کے بعد بلجیئم ان ممالک میں شامل ہوگیا جو یورپی انضمام کے عمل میں سرگرم عمل رہے۔ 1948 میں یہ بینیلوکس میں شامل ہوا، اور پھر 1949 میں نیٹو کے بانیوں میں سے ایک بن گیا۔ 1951 میں بلجیئم، نیدرلینڈز، لکسمبرگ، فرانس، اٹلی، اور مغربی جرمنی کے ساتھ مل کر یورپی کوئلے اور اسٹیل کی کمیونٹی (ECSC) کے قیام کے معاہدے پر دستخط کیے، جو یورپی یونین کی تشکیل کی طرف پہلا قدم ثابت ہوا۔
جنگ کے بعد بلجیئم کی اقتصادی ترقی تیز رفتار تھی، اور ملک مارشل پلان اور امریکہ کی مدد کی بدولت تیزی سے بحال ہوگیا۔ اینورپن دوبارہ یورپ کی اہم ترین بندرگاہ بن گیا، اور بروسلز بین الاقوامی سفارتکاری کا مرکز بن گیا، جہاں نیٹو اور یورپی اقتصادی کمیونٹی (EEC) کے صدر دفاتر قائم ہوئے، جو یورپی یونین کا پیش خیمہ تھا۔
تاہم، ملک کے اندر سخت سماجی اور سیاسی مسائل، فلامنڈ اور والون کے درمیان زبان اور ثقافتی تقسیم کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔ 1960 کی دہائی میں اقتدار کی غیر مرکزیت اور علاقوں کو مزید اختیارات دینے کے لئے اصلاحات کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ اصلاحات اگرچہ سیاسی صورتحال کو مستحکم کر گئیں، لیکن فلامنڈ اور والون کے درمیان تنازعات کو مکمل طور پر ختم نہیں کر سکیں۔
نتیجہ
بلجیئم کی جدید تاریخ اور عالمی جنگوں میں تاریخ یہ ظاہر کرتی ہے کہ ایک چھوٹا ملک مختلف چیلنجز کا سامنا کیسے کر سکتا ہے اور بین الاقوامی میدان میں ایک اہم کھلاڑی بن سکتا ہے۔ دو تباہ کن عالمی جنگوں اور بین الحربی دور کی مشکلات سے گزرتے ہوئے، بلجیئم نے یورپ کی اقتصادی اور سماجی تجدید کا ایک علامت بن کر ابھرا۔ اس کا یورپی انضمام اور بین الاقوامی سفارتکاری میں کردار آج بھی اہم ہے۔