عثمانی حکومت کا دور خطے میں پندرہویں صدی کے آخر میں شروع ہوا اور انیسویں صدی کے آخر تک جاری رہا، جب خطہ نے آزادی حاصل کی۔ یہ دور سیاسی، سماجی اور ثقافتی زندگی میں اہم تبدیلیوں کا تھا۔ عثمانی سلطنت کے دباؤ کے باوجود، لوگوں نے اپنی شناخت اور روایات کو برقرار رکھا، جس نے ان کی آزادی کی جدوجہد کو خطے کی تاریخ کا ایک اہم ورق بنا دیا۔
عثمانیوں نے چودہویں صدی میں بالکان میں اپنی توسیع کا آغاز کیا۔ ایک ہزار چار سو چھانوے میں خطہ عثمانی فتح کے خطرے میں پڑ گیا، اور ایک ہزار چار سو انیس میں خطے کے شہزادے اور عثمانی سلطان کے درمیان ایک معاہدہ ہوا۔ تاہم، اصل میں لوگوں کا ذاتی طور پر تابع ہونے کا آغاز صرف سولہویں صدی میں ہوا، جب عثمانی سلطنت نے خطے کے زیادہ تر علاقوں پر کنٹرول قائم کیا۔ لوگوں کو سخت ٹیکس، فوج میں بھرتی اور دیگر مسائل کا سامنا کرنا پڑا، جس کے باعث مسلسل بغاوتیں وقوع پذیر ہوئیں۔
سولہویں اور سترہویں صدی میں، عثمانی سلطنت نے خطے کا انتظام مقامی خود مختاری کے نظام کے ذریعے کیا، جبکہ لوگوں کے شہزادوں کے لیے مخصوص خود مختاری بھی برقرار رکھی۔ اس دوران، لوگ مزاحمت کی تنظیمیں بنا رہے تھے، جو اپنے مقامی پہاڑی علاقوں کے علم کا استعمال کرتے ہوئے عثمانی افواج کے خلاف پارٹیزان کارروائیاں کر رہے تھے۔ اس دور کی اہم شخصیات میں ایوان چرنوے اور ان کے ورثاء شامل ہیں، جنہوں نے اپنی قوم کے تحفظ کے لیے طاقتور بننے کی کوشش کی۔
اس دور کا ایک اہم واقعہ زیٹینیے کی خانقاہ کی بنیاد رکھنا تھا، جو خطے کی روحانی اور ثقافتی زندگی کا مرکز بن گیا۔ یہ خانقاہ عثمانی حکمرانی کے خلاف مزاحمت کا علامت بھی بنی اور ہتھیاروں کے لیے فنڈز جمع کرنے کا مرکز بن گئی۔
عثمانی حکومت نے خطے کی سماجی ڈھانچے اور معیشت پر بڑا اثر ڈالا۔ سخت حالات کے باوجود، لوگوں نے اپنی زراعتی ثقافت کو برقرار رکھا، اور مویشیوں کی پرورش اور دستکاری کو بھی فروغ دیا۔ اس دور میں مقامی تجارت میں بھی اضافہ ہوا، خاص طور پر پہاڑی علاقوں میں، جہاں لوگ اپنے سامان کا تبادلہ پڑوسی علاقوں کی پیداوار کے ساتھ کیا کرتے تھے۔
معیشت میں اہم کردار رکھنے والی مصنوعات میں اناج، شراب اور گوشت شامل ہیں۔ لوگ زراعت اور مویشی پالنے میں فعال تھے، ساتھ ہی انہوں نے دستکاری کی روایات کو بھی ترقی دی، جن میں کڑھائی، تانے بانے اور مٹی کے برتن بنانا شامل تھا۔ اس نے مقامی خود مختاری کی تشکیل اور کمیونٹی کو مضبوط کیا۔
سترہویں صدی کے آخر سے لوگوں نے عثمانی حکومت کے خلاف مسلح بغاوتوں کا آغاز کیا۔ ایک ہزار سات سو گیارہ میں پہلی بڑی بغاوت ہوئی، جو کہ ناکام رہی۔ لیکن اس واقعے نے لوگوں کی خود مختاری اور آزادی کی جدوجہد کی طویل راہ کا آغاز کیا۔
اٹھارہویں صدی میں لوگوں نے مختلف عسکری اتحاد قائم کیے، جو عثمانی حکمرانی کے خلاف لڑ رہے تھے۔ اس دوران، شہزادہ ڈینلو پیٹروویچ اور ان کے جانشینوں نے عثمانی افواج کے خلاف فعال عسکری کمپینز کا آغاز کیا، جس سے لوگوں کی آزادی میں اضافہ ہوا۔ متعدد کامیاب مہمات کے نتیجے میں علاقے نے بڑی علاقائی کامیابیاں حاصل کیں۔
عثمانی حکمرانی کے باوجود، خطے کی ثقافتی زندگی ترقی کرتی رہی۔ عیسائی چرچ نے قومی شناخت اور زبان کی حفاظت میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس دور میں ادب، مقامی روایات اور رسم و رواج کی فعال ترقی ہوئی۔
لوگوں نے گانے اور کہانیاں تخلیق کیں، جو ان کی آزادی اور خود مختاری کی تمنا کو ظاہر کرتی ہیں۔ مقامی ماہرین نے آئیکون پینٹنگ اور تعمیرات میں مشغولیت اختیار کی، جس نے ثقافتی روایات کی حفاظت کی۔ خانقاہیں، جیسے اوستروگ اور زیٹینیے، ثقافتی زندگی اور تعلیم کے مراکز بن گئیں۔
خطے میں عثمانی حکومت نے ایک اہم دور تشکیل دیا، جو ملک کی تاریخ اور ثقافت پر گہرا اثر ڈال رہا ہے۔ ظلم و ستم اور مشکلات کے باوجود، لوگوں نے اپنی شناخت اور روایات کو برقرار رکھا، جو کہ آزادی کی جدوجہد کی بنیاد بنی۔ یہ دور خطے کی مکمل آزادی اور جدید ریاست کی تشکیل کے لیے بنیاد فراہم کی۔