تاریخی انسائیکلوپیڈیا

ہمیں Patreon پر سپورٹ کریں

تعارف

فلپائن کے حکومتی نظام کی ترقی ملک کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی زندگی میں تبدیلیوں کی عکاسی کرتی ہے جو اس کی تاریخ کے دوران واقع ہوئیں۔ دور غلامی سے، جب جزائر مختلف یورپی طاقتوں کے کنٹرول میں تھے، آزاد جمہوریہ تک، فلپائن نے اپنے حکومتی نظام کی تشکیل کے کئی مراحل کا سامنا کیا۔ ان میں سے ہر ایک مرحلہ ملک کی سیاسی ساخت پر اپنا نشان چھوڑ گیا اور اس کی مزید ترقی کا تعین کیا۔ آزادی، آمرانہ حکمرانی اور جمہوریت کے مراحل نے فلپائن کے موجودہ حکومتی نظام کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کیا۔

غلامی کا دور

انیسویں صدی کے آخر تک فلپائن ایک طویل ہسپانوی کالونی کی حکومت کے تحت تھے جو تین سو سال سے زیادہ جاری رہی۔ اس دور کے دوران جزائر ہسپانوی کالونی کی سلطنت کا حصہ بن گئے، اور حکومتی نظام مکمل طور پر مرکزی تھا جو ہسپانیہ سے کنٹرول کیا جاتا تھا۔ مقامی سطح پر حکومت کی طاقت گورنر کے ذریعہ چلائی جاتی تھی، جسے ہسپانیہ نے تعینات کیا تھا، جبکہ مقامی باشندوں کو ہسپانوی قوانین اور نظم و ضبط کی پابندی کرنی پڑتی تھی۔ دین، ثقافت اور تعلیم بھی ہسپانیہ کی حکومت کے کنٹرول میں تھیں۔

مزاحمت اور بغاوت کی چند لہروں کے بعد، ہسپانویوں نے 1898 میں ہسپانیہ-امریکی جنگ کے نتیجے میں فلپائن امریکہ کے حوالے کر دیے۔ تاہم اس وقت تک جزائر میں پہلے ہی آزادی کی آرزو ابھرتی رہی، جو آگے چل کر ترقی کرتی رہی۔

امریکی کالونی اور حکومتی نظام کی تشکیل کا آغاز

1898 میں ہسپانویوں کی شکست کے بعد فلپائن امریکہ کی کالونی بن گئے۔ ہسپانوی حکومت کے برعکس، امریکیوں نے مقامی بنیادی ڈھانچے، تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال کی ترقی کے لئے اصلاحات شروع کیں۔ تاہم، اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ کالونی کنٹرول کا مکمل خاتمہ ہو گیا۔ امریکی حکمرانی کے دوران فلپائن میں ایک زیادہ رسمی حکومتی نظام قائم ہوا، جہاں 1901 میں ایک گورنرکی اسمبلی بنائی گئی، جس میں مقامی اشرافیہ کے نمائندے اور امریکی حکام کی طرف سے مقرر کردہ افراد شامل تھے۔ 1916 میں جانسن ایکٹ منظور ہوا، جس نے فلپائن کے لئے زیادہ خودمختاری کی پیشکش کی، حالانکہ حکومت امریکی کنٹرول میں رہی۔

اس دوران، آزادی کے بڑھتے ہوئے تحریکوں اور امریکی سلطنت کے خلاف احتجاج کی وجہ سے کئی سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کا قیام عمل میں آیا جو فلپائن کی خود مختاری کے حق میں کھڑی تھیں۔ یہ دور خود ارادیت اور آزادی کے حق کی جدوجہد سے عبارت تھا، جو فلپائن کے حکومتی نظام کی بعد کی ترقی کا ایک اہم حصہ بنا۔

فلپائن ایک آزاد جمہوریہ کے طور پر

طویل جدوجہد کے بعد، فلپائن نے 4 جولائی 1946 کو امریکہ سے آزادی حاصل کی۔ نئے حکومتی نظام کا قیام ایک پیچیدہ عمل تھا، جس میں امریکی حکمرانی کے عناصر نے نمایاں اثر ڈالا۔ 1947 کا آئین ایک جمہوری حکمرانی کی شکل کو مستحکم کرتا ہے جس میں صدر کو مضبوط اختیارات دیے گئے، جو امریکی اثرات کی عکاسی کرتا ہے، اور مختلف شاخوں کے درمیان توازن قائم کرتا ہے۔

پہلی فلپائنی جمہوریہ کا قیام جمہوریت کو مضبوط بنانے کے مقصد سے کیا گیا، تاہم ملک میں اب بھی آمرانہ عناصر موجود تھے، جیسے بدعنوانی، سیاسی عدم استحکام اور اقتصادی مشکلات۔ 1946 سے 1972 کے دوران فلپائن نے سیاسی سرگرمیوں کے کئی مراحل کا سامنا کیا، جن میں سیاسی جماعتوں کی ترقی، باقاعدہ انتخابات، اور شہریوں کی حکومت میں شمولیت شامل تھی۔

فرڈینینڈ مارکوس کی حکومت

فرڈینینڈ مارکوس 1965 میں اقتدار میں آئے، اور ان کی حکومت فلپائن کی تاریخ کے ایک متنازعہ صفحات میں سے ایک رہی۔ انہیں صدر کے طور پر منتخب کیا گیا، لیکن 1972 میں انہوں نے فوجی حالت کا اعلان کیا، دلیل دیتے ہوئے کہ یہ کمیونسٹ خطرے سے نمٹنے اور ملک میں امن بحال کرنے کے لئے ضروری ہے۔ حقیقت میں، فوجی حالت نے مارکوس کو اپنی طاقت کو مستحکم کرنے، شہری آزادیوں کو محدود کرنے، مخالفت کو دبا دینے اور ایک ایسے نظام کو قائم کرنے کا موقع فراہم کیا جو درحقیقت ذاتی طاقت اور آمرانہ حکمرانی پر مشتمل تھا۔

مارکوس کی حکومت کے دوران ملک کی معیشت نے ترقی کی، لیکن اس کے ساتھ بڑی بدعنوانی، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، اور صحافتی آزادی پر دباؤ بھی رہا۔ ان کی حکومت 1986 میں عوامی انقلاب کے بعد ختم ہوئی، جب ان کی حکمرانی کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج نے ان کے فرار اور جلاوطنی کی طرف لے گیا۔ یہ واقعہ فلپائنی حکومتی نظام کی ترقی میں ایک اہم لمحہ تھا، کیونکہ اس نے جمہوریت کی واپسی کے راستے کو ہموار کیا۔

جمہوریت کی واپسی اور جدید حکومتی نظام

1986 میں فرڈینینڈ مارکوس کے خاتمے کے بعد، فلپائن نے اپنے سیاسی ترقی کے ایک نئے مرحلے میں قدم رکھا۔ کورازون آکیانو، جو مقتول اپوزیشن رہنما بینینو آکیانو کی بیوی تھیں، صدر کے طور پر منتخب ہوئیں اور فلپائن کی پہلی خاتون صدر بن گئیں۔ ان کی حکومت نے ملک میں جمہوریت کی واپسی کی علامت بنائی۔ 1987 کا آئین جمہوری اصولوں کی بحالی کرتا ہے، مضبوط اختیارات کی تقسیم کے نظام کو قائم کرتا ہے، جو سیاسی استحکام اور شہری آزادیوں کو یقینی بناتا ہے۔

تاہم، جمہوریت کے دور میں بھی فلپائن سیاسی اور اقتصادی چیلنجز کا سامنا کرتا رہا۔ بدعنوانی، غربت، اور سماجی عدم مساوات کے مسائل اب بھی موجود تھے۔ پھر بھی، ملک ایک جمہوری ریاست کے طور پر ترقی کرتا رہا، قانونی اور سماجی انصاف کے اداروں کو بتدریج مضبوط کرتا رہا۔

جدید حکومتی ڈھانچہ

فلپائن کا جدید حکومتی نظام ایک جمہوری جمہوریہ ہے جس میں بااختیار، قانون ساز اور عدالتی طاقتوں کی تقسیم ہے۔ صدر، جو چھ سال کی مدت کے لئے منتخب ہوتا ہے، ریاست اور ایگزیکٹو کے سربراہ ہوتے ہیں۔ ان کے پاس کافی اختیارات ہیں، جن میں وزراء اور دیگر اعلیٰ عہدے داروں کی تعیناتی کا حق بھی شامل ہے۔

قانون ساز طاقت دو ایوانوں پر مشتمل کانگریس میں موجود ہے، جس میں سینیٹ اور ایوان نمائندگان شامل ہیں۔ سینیٹرز چھ سال کے لئے منتخب ہوتے ہیں، جبکہ ایوان نمائندگان کے اراکین تین سال کے لئے منتخب ہوتے ہیں۔ عدالتی طاقت، جو کہ سپریم کورٹ کے ذریعہ فراہم کی جاتی ہے، ایک آزاد عدالت کے ذریعہ چلائی جاتی ہے، جو آئینی کنٹرول کے فرائض انجام دیتی ہے۔

گزشتہ چند دہائیوں میں فلپائن نے سیاسی اصلاحات اور انسانی حقوق کے شعبے میں اصلاحات کی گواہی دی ہے، جو حکومتی نظام کی مزید ترقی کا اشارہ ہے۔ تاہم، ملک بدعنوانی، سماجی مسائل، اور دہشت گردی کے خلاف جنگ جیسے متعدد چیلنجز کا سامنا کرنا جاری رکھتا ہے۔

نتیجہ

فلپائن کے حکومتی نظام کی ترقی نے کئی نمایاں مراحل طے کئے، جن میں غلامی کا دور، آزادی کی جدوجہد، آمرانہ حکمرانی، اور جمہوریت کی بحالی شامل ہیں۔ ان میں سے ہر ایک مرحلہ ملک کے موجودہ سیاسی منظر نامے کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ آج فلپائن ایک جمہوری جمہوریہ ہے جس کے فعال طور پر ترقی پذیر ادارے موجود ہیں، لیکن اسے ایسے چیلنجز کا سامنا ہے جن کے لیے حکومتی نظام کو مزید مستحکم اور بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

بانٹنا:

Facebook Twitter LinkedIn WhatsApp Telegram Reddit Viber email

دیگر مضامین:

ہمیں Patreon پر سپورٹ کریں