جوہری رییکٹر کی اختراع 1940 کی دہائی کے آغاز میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی تاریخ میں ایک اہم لمحہ بن گئی۔ اس نے توانائی اور طبیعیات کے میدان میں نئے افق کھولے، اور ایٹمی توانائی اور جوہری ہتھیاروں کی تخلیق کے لیے بنیاد فراہم کی۔ اس مضمون میں، ہم جوہری رییکٹر کی تشکیل کی تاریخ، اس کی اہم خصوصیات، اور اس کی اختراع کے نتائج کا جائزہ لیں گے۔
بیسویں صدی کے آغاز میں، طبیعیات دانوں نے یہ ادراک کرنا شروع کیا کہ ایٹمز بے حد طاقت کے ذرائع ہو سکتے ہیں۔ 1896 میں ہنری بیکرلے کے ذریعہ ریڈیوایکٹیویٹی کا انکشاف اور البرٹ آئن سٹائن جیسے سائنسدانوں کا کام، جنہوں نے مشہور فارمولا E=mc² پیش کیا، اس میدان میں مزید تحقیقات کی بنیاد فراہم کی۔ 1930 کی دہائی تک یہ واضح ہو گیا کہ ایٹمی نیوکلیئر کی تقسیم کو توانائی کے ذرائع کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
جوہری رییکٹر کی تخلیق کی طرف پہلا براہ راست قدم 1938 میں اٹھایا گیا، جب جرمن طبیعیات دانوں اوٹو ہان اور فریٹز سٹیرن نے یورینیم کی تقسیم کا انکشاف کیا، جو نیوٹرانز پر تجربات کی بدولت ممکن ہوا۔ یہ دریافت دنیا بھر کے سائنسدانوں کی توجہ کا مرکز بنی اور کنٹرول شدہ زنجیری عمل کی تخلیق کے پہلے تجربات کی طرف لے گئی۔
1942 میں، دوسری جنگ عظیم کے عروج پر، ایک سائنسدانوں کی ٹیم کی قیادت انریکو فیئرمی نے شکاگو یونیورسٹی میں جوہری زنجیری عمل پر پہلا کامیاب کنٹرول حاصل کیا۔ یہ تجربہ، جسے "شکاگو پائلٹ" کے نام سے جانا جاتا ہے، یورینیم اور گرافائٹ کے بطور نیوٹران کے سست کرنے والے مواد کے استعمال کی بدولت ممکن ہوا۔ رییکٹر متعدد تہوں پر مشتمل تھا، جس میں یورینیم کی مالامال مواد اور گرافائٹ شامل تھا، جو نیوٹران کو سست کرنے میں مدد فراہم کرتا تاکہ عمل جاری رہے۔
پہلا جوہری رییکٹر جسے "شکاگو پائلٹ رییکٹر" کا نام دیا گیا، کی طاقت صرف 0.5 واٹ تھی۔ تاہم، اس نے کنٹرول شدہ جوہری عمل کی ممکنہ کمزوری کو ظاہر کیا اور مستقبل کی ترقی کی بنیاد فراہم کی۔ رییکٹر کے اہم اجزاء کے تحت نیوٹران کو سست کرنے والے مواد جیسے گرافائٹ اور حرارت کے منتقلی والے مواد شامل تھے، جو عمل کے نتائج کو ہٹانے اور بہترین درجہ حرارت برقرار رکھنے میں مدد کرتے تھے۔
فیئرمی کے تجربے کی کامیابی نے جوہری طبیعیات اور ایٹمی توانائی کے میدان میں مزید تحقیقات کے لیے دروازے کھول دیے۔ اس کے فوری بعد بجلی پیدا کرنے کے لیے جوہری رییکٹروں کی فعال ترقی کا آغاز ہوا۔ 1954 میں، سوویت یونین میں دنیا کا پہلا ایٹمی بجلی گھر چلنا شروع ہوا، جو دوسرے ممالک کو پیچھے چھوڑ گیا۔ جوہری رییکٹرز مختلف ضروریات کے لیے استعمال ہونے لگے: سائنسی تحقیقات سے لے کر برقی توانائی کی پیداوار تک۔
بدقسمتی سے، جوہری رییکٹر کی ترقی کے نتیجے میں سامنے آنے والی ٹیکنالوجیز بھی فوجی مقاصد کے لیے استعمال کی گئیں۔ ایٹمی بموں کی ترقی 1940 کی دہائی میں ہتھیاروں کی دوڑ کا ایک لازمی حصہ بن گئی۔ 1945 میں امریکہ کے پہلے جوہری تجربات نے یہ ثابت کیا کہ کنٹرول شدہ جوہری عمل کو نہ صرف امن کی ضروریات کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے بلکہ بطور طاقتور ہتھیار بھی۔
آج، جوہری رییکٹرز دنیا بھر میں برقی توانائی کی پیداوار میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ کم کاربن کا اخراج کرتے ہوئے توانائی کی ایک بڑی مقدار فراہم کر رہے ہیں اور ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف جدوجہد میں اہم عنصر بن رہے ہیں۔ تاہم، جوہری توانائی کی ترقی مختلف مسائل کے ساتھ بھی آتی ہے، بشمول حفاظتی سوالات، جوہری فضلے کی انتظام اور جوہری ہتھیاروں کی پھیلاؤ۔
جوہری رییکٹر کی اختراع بیسویں صدی کے سب سے اہم واقعات میں سے ایک بن گئی، جو سائنس اور ٹیکنالوجی میں نئے افق کھولتی ہے۔ اس کا اثر آج بھی محسوس ہوتا ہے، چاہے توانائی کے شعبے میں ہو یا جغرافیائی سیاست میں۔ جوہری توانائی، اپنے تمام نقصانات اور خطرات کے باوجود، ترقی پذیر رہتی ہے، جو توانائی کی خودمختاری اور پائیدار ترقی کے حصول میں ایک اہم ذریعہ بنی ہوئی ہے۔