تاریخی انسائیکلوپیڈیا

آزادی اور جدید قازقستان

تعارف

قازقستان وسط ایشیا کے سب سے بڑے اور اہم ترین ممالک میں سے ایک ہے جو عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی اثر و رسوخ حاصل کر رہا ہے۔ قازقستان کے لئے آزادی کا سفر 1991 میں سوویت اتحاد کے ٹوٹنے کے بعد شروع ہوا۔ اس وقت کے دوران، ملک متعدد سیاسی، اقتصادی اور سماجی تبدیلیوں سے گزرا، اور وہ اس خطے کی سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی جمہوریہ بن گیا ہے۔

آزادی کا اعلان

16 دسمبر 1991 کو قازقستان نے سرکاری طور پر اپنی آزادی کا اعلان کیا، جو اس کی تاریخ میں ایک سنگ میل ثابت ہوا۔ یہ اقدام سوویت اتحاد سے مکمل نکلنے اور ملک کی ترقی میں ایک نئے مرحلے کا آغاز ثابت ہوا۔ آزادی کے پہلے سالوں میں قازقستان کو متعدد چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا — اقتصادی بحران سے لے کر خود کی ریاستی نظام کی تشکیل تک۔

لیکن متوازن پالیسی اور ہدفمند اقتصادی حکمت عملی کی بدولت، ملک نے بہت سی مشکلات پر قابو پایا اور استحکام و خوشحالی کی سمت بڑھنا شروع کیا۔ آزاد قازقستان کا پہلا صدر نورسلطان نزاربایف رہا، جس نے نئی ریاست کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔

سیاسی اصلاحات اور ترقی

آزادی کے پہلے سالوں میں قازقستان کو نئی ریاستی انتظامیہ کے نظام کی تشکیل کی ضرورت پیش آئی۔ جمہوری اداروں اور قانون کی حکمرانی کی تشکیل کے لئے سیاسی اصلاحات کا سلسلہ جاری رکھا گیا۔ 1993 میں ملک کا پہلا آئین منظور کیا گیا، جو قازقستان کی سیاسی نظام کی ترقی کی بنیاد بنا۔

لیکن ملک کا سیاسی نظام کچھ خاص خصوصیات کے ساتھ ترقی پذیر رہا۔ کئی سالوں تک قازقستان ایک ایسی ملک رہا جہاں ایک سیاسی قوت — "نور اوطان" پارٹی، جو نزاربایف کی قیادت میں تھی، کا غلبہ تھا۔ اس پر بین الاقوامی تنظیموں کی جانب سے تنقید کی گئی، حالانکہ قازق حکومت کا دعویٰ تھا کہ یہ راستہ استحکام کو بڑھانے اور مشکل عبوری مراحل کے دوران پائیدار ترقی کی ضمانت دیتا ہے۔

سیاسی اصلاحات کے راستے میں ایک اہم قدم 1995 میں نئی آئین کی منظوری تھی، جس نے صدارتی جمہوریہ کو قائم کیا اور صدر کو وسیع اختیارات دیئے۔ یہ فیصلہ ملک میں سیاسی صورتحال کو مستحکم کرنے میں مددگار ثابت ہوا، لیکن اس نے حکومت کی جمہوری نوعیت پر بھی بحث کو جنم دیا۔

اقتصادی اصلاحات اور مارکیٹ کی تبدیلیاں

آزاد قازقستان کی ترقی کے ایک اہم پہلو وسیع اقتصادی اصلاحات کا نفاذ تھا۔ ملک نے منصوبہ بند معیشت سے مارکیٹ میں منتقل ہونا شروع کیا، جس کے ساتھ ہی ریاستی کمپنیوں کی نجکاری، تجارت اور مالیاتی شعبے کی لبرلائزیشن کی گئی۔

قازقستان قدرتی وسائل کے وسیع ذخائر میں مالا مال ہے، بشمول تیل، گیس، کوئلہ اور دھاتیں۔ اس نے ملک کو بڑے پیمانے پر غیر ملکی سرمایہ کاری حاصل کرنے کی اجازت دی، جو 2000 کی دہائی میں اقتصادی ترقی کی بنیاد بنی۔ قازقستان عالمی سطح پر تیل اور گیس کی پیداوار میں ممتاز رہا، جس نے ملک کی بین الاقوامی دنیا میں حیثیت کو مستحکم کیا۔

ملکی حکومت نے نئی اقتصادی شعبوں کی ترقی کی بھرپور حمایت کی، بشمول ٹیکنالوجی، بنیادی ڈھانچے اور زراعت۔ 2010 کی دہائی میں "قازقستان 2050" کا منصوبہ منظور کیا گیا، جس کا مقصد ملک کو 21ویں صدی کے وسط تک دنیا کے 30 سب سے ترقی یافتہ ممالک میں شامل کرنا تھا۔

قازقستان کی خارجہ پالیسی

آزادی کے پہلے سالوں سے قازقستان نے بین الاقوامی دنیا میں ایک فعال حیثیت اختیار کی، مختلف ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کی کوشش کی۔ قازقستان نے اقوام متحدہ، او ایس سی ای، شنگھائی تعاون تنظیم اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں میں شمولیت اختیار کی، جس نے اسے عالمی عمل میں فعال طور پر شرکت کرنے کی اجازت دی۔

ملکی خارجہ پالیسی کے ایک اہم پہلو نے وسطی ایشیا، روس، چین اور مغرب کے ساتھ تعلقات قائم کرنا شامل کیا۔ قازقستان خود کو "مشرق اور مغرب کے درمیان پل" کے طور پر پیش کرتا ہے، جو اس کی جغرافیائی حیثیت کو یورپ اور ایشیا کے درمیان اجاگر کرتا ہے۔ بین الاقوامی سیاست میں ملک کی ایک اہم حیثیت تعمیری اقدامات جیسے علاقائی تنازعات کے حل میں ثالثی نے ادا کی۔

جدید چیلنجز اور امکانات

آج کے دن قازقستان اب بھی وسطی ایشیا کے سب سے زیادہ مستحکم اور ترقی یافتہ ممالک میں سے ایک ہے۔ تاہم، ملک کے سامنے نئے چیلنجز بھی ہیں۔ ان میں سے ایک سیاسی اصلاحات کے تسلسل کی ضرورت ہے، جس کا مقصد جمہوریت کی سطح کو بڑھانا اور عوام کو سیاسی زندگی میں مشغول کرنا ہے۔ 2019 میں نورسلطان نزاربایف نے استعفیٰ دے دیا، اور اختیارات صدر قاسم-جومرت توکایف کے سپرد کر دیئے۔ یہ ملک کی سیاسی زندگی میں ایک نئی باب کا آغاز ہے، اور توکایف نے اصلاحات کا تسلسل جاری رکھا۔

ایک اور چیلنج اقتصادی متنوع سازی کی ضرورت ہے۔ حالانکہ تیل اور گیس کے شعبے میں کامیابیاں ہیں، قدرتی وسائل کی برآمد پر انحصار معیشت کو عالمی قیمتوں کی اتار چڑھاؤ کے سامنے کمزور بناتا ہے۔ اس لئے قازقستان کی حکومت دیگر شعبوں کی ترقی پر فعال طور پر کام کر رہی ہے، جیسے کہ جدید ٹیکنالوجی، متبادل توانائی اور زراعت۔

ماحولیاتی مسائل بھی قازقستان کے لئے مزید مربوط ہوتے جا رہے ہیں۔ ملک زمینوں کی تنزلی، پانی کے وسائل اور ہوا کی آلودگی کے مسائل کا سامنا کر رہا ہے، خصوصاً صنعتی علاقوں میں۔ حکومت فعال طور پر "سبز" اقدامات پر عمل درآمد کر رہی ہے، بشمول تجدید پذیر توانائی اور قدرتی وسائل کے پائیدار استعمال کے پروگرام۔

اختتام

قازقستان نے اپنی آزادی کے برسوں میں ایک طویل سفر طے کیا، جو سوویت جمہوریہ سے وسطی ایشیا کے ایک سب سے متحرک ملک میں تبدیل ہوگیا۔ ابھی بھی بہت کام باقی ہے، لیکن اب ملک اپنے مستقبل میں اعتماد ظاہر کر رہا ہے اور نئے چیلنجز کے لئے تیار ہے۔

سیاسی اور اقتصادی اصلاحات کے کامیاب نفاذ کے ساتھ ساتھ فعال خارجی پالیسی قازقستان کو عالمی سطح پر ایک اہم کردار ادا کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ ملک کے سامنے موجود مشکلات کے باوجود، قازقستان مستقل ترقی کی راہ پر گامزن ہے، اپنے اسٹریٹجک مقاصد کو حاصل کرنے اور آزادی کو مستحکم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

بانٹنا:

Facebook Twitter LinkedIn WhatsApp Telegram Reddit email

دیگر مضامین: