قازقستان، جو وسطی ایشیا میں واقع ہے، ایک کثیر القومی ریاست ہے جس میں مختلف لسانی روایات پائی جاتی ہیں۔ قازقستان میں لسانی صورتحال کی اپنی خصوصیات ہیں، جو صدیوں کی تاریخ، آبادی کی کثیر القومی ترکیب اور ثقافتی اثرات کی وجہ سے ہیں۔ ملک کی لسانی پالیسی اس کی قومی شناخت کو برقرار رکھنے اور جمہوریہ کی سرزمین پر رہائش پذیر مختلف نسلی گروہوں کے اتحاد کو مستحکم کرنے کی کوششوں کی عکاسی کرتی ہے۔ اس مضمون میں ہم قازقستان کی لسانی خصوصیات، قازق زبان کا کردار، دو لسانیت کے مسائل اور دیگر اہم پہلوؤں پر غور کریں گے۔
قازق زبان قازقستان کی ریاستی زبان ہے، جیسا کہ ملک کے آئین میں درج ہے۔ قازق زبان ترکی زبانوں کے گروپ سے تعلق رکھتی ہے اور قازقستان کی اکثریت کے لیے مادری زبان ہے۔ اس کی تاریخی جڑیں گہری ہیں اور یہ قازق عوام کی ثقافت اور رابطے کا بنیادی ذریعہ ہے۔ بطور ریاستی زبان، قازق زبان قومی شناخت کے قیام، ثقافت اور روایات کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے، ساتھ ہی انتظامی اور قانونی سرگرمیوں میں یکسانیت کو برقرار رکھتی ہے۔
قازق زبان کی اپنی تحریری شکل ہے، جو اپنی تاریخ میں کئی تبدیلیوں سے گزری ہے۔ 1929 تک، قازق لوگ عربی alphabet استعمال کرتے تھے، پھر لاطینی alphabet متعارف کرایا گیا، جو 1940 تک برقرار رہا۔ سوویت دور میں قازق زبان کے لیے سرائکی خط کو اپنایا گیا، جس نے ملک میں لسانی صورتحال پر بڑا اثر ڈالا۔ حالیہ دہائیوں میں قازقستان میں قازق زبان کے لاطینی alphabet میں تبدیلی پر زور دیا جارہا ہے، جو زبان کی تجدید اور ترقی کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر اس کے استعمال کی وسعت کا بھی اہم قدم ہوگا۔
روس کی زبان قازقستان میں ایک خاص مقام رکھتی ہے اور یہ بین الاقوامی رابطے کی زبان ہے۔ یہ قازق زبان کے ساتھ سرکاری زبان کے طور پر تسلیم کی گئی ہے، جو قازقستان میں لسانی صورتحال کی ترقی پر روس اور سوویت یونین کے تاریخی اثرات کی عکاسی کرتی ہے۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے اور قازقستان کی آزادی کے بعد، روسی زبان نے ملک کی اقتصادی، سیاسی اور ثقافتی زندگی میں اپنی اہمیت برقرار رکھی۔
روسی زبان روزمرہ زندگی، کاروبار، تعلیم، میڈیا اور ریاستی انتظام میں وسیع پیمانے پر استعمال کی جاتی ہے۔ بہت سے قازقستانی افراد روسی زبان کو دوسری زبان کے طور پر بولتے ہیں، اور یہ زبان مختلف نسلی گروہوں کے لیے ایک اہم رابطہ پل بنی رہتی ہے۔ یہ اہم ہے کہ قازقستان میں مختلف گونه کے دو لسانیت موجود ہیں، جہاں قازق اور روسی زبانیں ہم وقتاً فوقتاً استعمال کی جاتی ہیں اور آپس میں گہرائی میں تعامل کرتی ہیں۔
قازقستان ایک کثیر القومی ریاست ہے، اور اس کی سرزمین پر 130 سے زیادہ نسلی گروہوں کا قیام ہے، جو مختلف زبانوں میں بات چیت کرتے ہیں۔ قازق اور روسی زبانوں کے علاوہ، قازقستان میں اویغور، تاتاری، کوریائی، ازبک اور دیگر زبانیں بھی وسیع پیمانے پر پائی جاتی ہیں۔ یہ تمام زبانیں مختلف لسانی خاندانوں سے تعلق رکھتی ہیں، جو قازقستان کو مشرق اور مغرب کے درمیان لسانی اور ثقافتی پل بنا دیتی ہیں۔
ہر نسلی گروپ اپنی لسانی اور ثقافتی شناخت کو برقرار رکھتا ہے، اور جمہوریہ میں قومی زبانوں کی فعال حمایت کی جاتی ہے۔ ملک کے مختلف علاقوں میں ایسی اسکولیں موجود ہیں جہاں مادری زبانوں میں تدریس کی جاتی ہے، اور مختلف زبانوں میں کام کرنے والے ثقافتی مراکز بھی موجود ہیں۔ یہ لسانی تنوع مختلف قوموں کے درمیان ثقافتی روایات اور مکالمے کی دولت کو بڑھانے میں معاونت کرتا ہے جو قازقستان میں رہتے ہیں۔
قازقستان کی لسانی پالیسی قازق زبان کی حفاظت اور ترقی کی طرف مرکوز ہے، نیز روسی زبان بولنے والی آبادی اور دیگر نسلی گروہوں کی حمایت پر توجہ مرکوز ہے۔ بنیادی مقصد یہ ہے کہ قازق زبان کی ترقی کے لیے حالات پیدا کیے جائیں، اس کا استعمال ریاستی اور سرکاری اداروں میں ہو، اور ساتھ ہی تعلیمی عمل میں بھی۔ اس کے ساتھ، دو لسانیت کی حمایت کرنا بھی اہم ہے، جو ملک کے اکثر شہریوں کی زندگی کا ایک اہم حصہ ہے۔
لسانی پالیسی کے تحت قازق زبان کی ترقی کے لیے بہت سے قوانین اور پروگرامز اپنائے گئے ہیں۔ ایک اہم اقدام قازق زبان کو تعلیمی نظام میں متعارف کرانا ہے، جہاں سرکاری زبان میں تدریس کی تعداد بتدریج بڑھ رہی ہے۔ ایسے پروگرام بھی ہیں جو اساتذہ اور مترجمین کی تربیت کے لیے تیار کیے گئے ہیں، جو قازق زبان کی مختلف شعبوں میں زیادہ وسیع استعمال میں معاونت کریں گے۔
قازقستان میں کثیر اللسانی کی حمایت کے لیے شہریوں کے لیے زبان سیکھنے کا ایک نظام بھی تیار کیا گیا ہے۔ قازقستان میں ایسے کورسز اور پروگرام فعال طور پر ترقی پا رہے ہیں جو شہریوں کو قازق زبان کی مہارت کو بہتر بنانے اور دیگر زبانیں سیکھنے کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔ اس بات کی اہمیت ہے کہ ہر شہری کو اپنی مادری زبان اور ریاستی زبان پر آزادانہ طور پر بات چیت کرنے کا موقع ملے، جو مختلف نسلی گروہوں کے درمیان اتحاد اور ہم آہنگی کو بڑھاتا ہے۔
تمام کوششوں کے باوجود، قازقستان کی لسانی پالیسی کے مکمل نفاذ کے راستے میں کچھ مسائل اور چیلنجز موجود ہیں۔ ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ لاطینی خط پر منتقلی کی حالت حتمی نہیں ہے۔ اگرچہ یہ عمل آنے والے سالوں میں منصوبہ بند تھا، لیکن ملک کے کئی شہری تبدیلیوں کے لیے تیار نہیں ہیں، جس سے روزمرہ زندگی اور تعلیم میں مشکلات پیش آتی ہیں۔
اس کے علاوہ، قازق زبان پر اعلیٰ مہارت رکھنے والے ماہرین کی کمی کا مسئلہ بھی موجود ہے، جو قازق زبان کی تحقیقاتی، تکنیکی اور دیگر پیشہ ورانہ شعبوں میں ترقی کو روکتا ہے۔ یہ مسئلہ قازق زبان کی تدریس کے لیے بنیادی ڈھانچے کی کمی پر بھی اثر انداز ہوتا ہے، خاص طور پر ان شہروں میں جہاں روسی بولنے والی آبادی زیادہ ہے۔
لیکن ان مسائل کے باوجود، قازقستان اپنی لسانی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے کام کرتا رہتا ہے، سکھانے کے پروگراموں کو بہتر بناتا ہے اور مختلف شعبوں میں قازق زبان کے استعمال کی سہولیات کو بڑھاتا ہے۔
قازقستان میں لسانی صورتحال کا مستقبل زبان کی تعلیم کے لیے ریاستی پروگرام کے کامیاب نفاذ، لاطینی خط میں منتقلی اور مختلف شعبوں میں قازق زبان کی مزید انضمام پر منحصر ہے۔ یہ اہم ہے کہ قازق زبان سائنس، ٹیکنالوجی اور کاروبار کی بنیادی زبان بن جائے، جبکہ روسی زبان مختلف نسلی گروہوں کے درمیان رابطے کا کردار ادا کرتی رہے۔
ایک اہم مقصد یہ ہے کہ یہ یقینی بنایا جائے کہ ہر شہری قازق اور روسی دونوں زبانوں میں آزادانہ اور مؤثر طریقے سے بات چیت کر سکے، اور دیگر زبانیں بھی سیکھ سکے۔ قازقستان کی لسانی پالیسی کو قومی شناخت کو مضبوط کرنے اور ثقافتی تنوع کی حفاظت کی سمت تعاون کرنا چاہیے، جو ملک کی زندگی کا ایک اہم حصہ ہے۔
قازقستان کی لسانی خصوصیات ثقافتی ورثے اور قوم کی ایک وسیع شکل کی عکاسی کرتی ہیں۔ قازق اور روسی زبانیں ملک کی اندرونی یکجہتی کی ضمانت دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں، جبکہ اویغور، تاتاری اور ازبک جیسی دیگر زبانیں آبادی کی کثیر قومی تشکیل کی عکاسی کرتی ہیں۔ قازقستان کی لسانی پالیسی قازق زبان کی ترقی اور تحفظ، دو لسانیت کی حمایت اور تمام نسلی گروہوں کے لسانی حقوق کی پاسداری کی طرف متوجہ ہے۔ ثقافتی اور لسانی شناخت کی حفاظت کے ساتھ ساتھ عالمی عمل سے ہم آہنگی قازقستان میں مستقبل کی لسانی صورتحال کو متعین کرے گی۔