ملائیشیا کی آزادی کا راستہ ایک طویل اور مشکل عمل تھا، جس میں کئی دہائیاں شامل تھیں۔ اس میں نوآبادیاتی طاقتوں کے خلاف جدوجہد، قومی شعور کا عروج اور مختلف نسلی گروپوں کی خود ارادیت کی خواہش شامل تھی۔ اس مضمون میں ہم اس تاریخی عمل کے اہم مراحل، اہم شخصیات کے اثرات اور اہم واقعات کا جائزہ لیں گے۔
ملائیشیا میں قومی تحریک 20 ویں صدی کے آغاز میں ترقی پذیر ہوئی، جب مقامی دانشوروں اور لیڈروں نے ملائیوں کے حقوق کی جدوجہد کی ضرورت محسوس کی۔ ایک اہم قدم ملایائی اتحاد (Malayan Union) کا قیام 1946 میں ہوا، جس نے سیاسی تبدیلیوں کی ابتدا کی۔ اس اتحاد نے ایک سیاسی نظام کی بنیاد رکھی، جو مقامی آبادی کے مفادات کی نمائندگی کرسکے۔
1946 میں پہلی سیاسی جماعت ملایائی مسلم لیگ (Parti Kebangsaan Melayu Malaya, PKMM) قائم کی گئی، جو ملائیوں کے حقوق اور نئی سیاسی نظام میں ان کے مقام پر زور دیا۔ یہ مختلف نسلی گروپوں کے مفادات کی عکاسی کرنے والی کئی سیاسی جماعتوں کے قیام کا آغاز بنا، بشمول ملایائی قومی اتحاد (UMNO) اور ہندوستانی قومی کانگریس (Indian National Congress)۔
1939 میں شروع ہونے والی دوسری عالمی جنگ نے ملایائی سیاست پر نمایاں اثر ڈالا۔ جاپانی قبضہ (1942-1945) نے برطانوی اثر و رسوخ کو کمزور کر دیا اور قومی نظریات کو جنم دیا۔ مقامی لوگوں نے، جنہوں نے سخت قبضے کو جھیلا، یہ سمجھنا شروع کر دیا کہ وہ اپنے ملک کو نوآبادیاتی طاقت کے بغیر چلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
جنگ کے بعد، بہت سے ملائیوں نے نوآبادیاتی پالیسی کے خلاف اپنی ناپسندیدگی کا بھرپور اظہار کرنا شروع کیا۔ 1945 میں ملایائی ورکنگ پارٹی قائم ہوئی، جو مکمل آزادی کا مطالبہ کرتی تھی۔ یہ جذبات بڑے پیمانے پر مظاہروں اور ہڑتالوں کا باعث بنے، جس نے برطانوی حکومت کو اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنے پر مجبور کیا۔
1946 میں برطانویوں نے ملایائی اتحاد قائم کرنے کی کوشش کی، جس نے تمام ملائی ریاستوں کو برطانوی کنٹرول کے تحت اکٹھا کیا۔ تاہم یہ منصوبہ مقامی آبادی کی شدید مخالفت کا شکار ہوا۔ 1948 میں ایک نئی ڈھانچہ قائم کی گئی، ملایائی ریاستوں کا اتحاد، جو خود ارادیت کی راہ میں اہم قدم ثابت ہوا۔
1949 میں سیاسی صورتحال میں تبدیلیوں کے جواب میں ملایائی قومی اتحاد (UMNO) کی بنیاد رکھی گئی، جس نے آزادی کی جدوجہد میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ UMNO کے رہنما، تنکو عبدالرحمن، ملک کے سب سے با اثر سیاستدانوں میں سے ایک بن گئے اور ملائی قومیّت کی علامت بنے۔
1950 کی دہائی میں دنیا بھر میں کولونائزیشن کے خاتمے کا عمل شروع ہوا، اور ملایا اس سے مستثنیٰ نہیں رہا۔ انٹی کالونیل جذبات اور مقامی رہنماؤں کے دباؤ کے ساتھ برطانیہ کو آزادی کے مذاکرات پر رضامند ہونا پڑا۔ 1955 میں پہلا انتخاب ہوا، جس میں ملائی آبادی کے نمائندے منتخب ہوئے۔
آزادی کے مذاکرات 1956 میں شروع ہوئے، جب تنکو عبدالرحمن نے ملایا کے مستقبل پر بات چیت کے لیے لندن کا سفر کیا۔ ان کی کوششوں کا نتیجہ مثبت رہا، اور 31 اگست 1957 کو ملایا نے باضابطہ طور پر ایک آزاد ریاست کے طور پر وجود میں آنے کا اعلان کیا، جو پوری قوم کے لیے ایک تاریخی لمحہ تھا۔
آزادی کے بعد ملایا نے کئی چیلنجز کا سامنا کیا، بشمول مختلف نسلی گروپوں کو ایک ہی ریاست میں انضمام کی ضرورت۔ تنکو عبدالرحمن اور ان کی حکومت نے قومی شناخت کو مضبوط بنانے اور معیشت کی ترقی کے لئے متعدد اصلاحات کیں۔
1963 میں ملایا نے سنگاپور، ساراواک اور صباہ کے ساتھ مل کر ملایاہ کی فیڈریشن قائم کی، جو جدید ملاییشین ریاست کے قیام کی طرف ایک اہم قدم تھا۔ یہ اتحاد معیشت کی ترقی اور خطے میں استحکام کو برقرار رکھنے میں بھی مددگار ثابت ہوا۔
ملائیشیا کی آزادی کا راستہ ایک طویل اور مشکل عمل تھا، جس میں مقامی رہنما اور سیاسی جماعتوں نے اہم کردار ادا کیا۔ ملائیوں کی آزادی کی جدوجہد کی تاریخ خود ارادیت اور قومی اتحاد کی خواہش کی عکاسی کرتی ہے۔ 1957 میں حاصل کی گئی آزادی ملک کی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل بن گئی اور ملائیشیا کی ترقی کا ایک نیا دور شروع کیا۔