تاریخی انسائیکلوپیڈیا

دوسری عالمی جنگ میں سوویت اتحاد

دوسری عالمی جنگ (1939-1945) انسانیت کی تاریخ میں ایک سب سے تباہ کن تنازعہ بن گئی۔ سوویت اتحاد، اس عالمی تصادم میں کلیدی کردار ادا کرتے ہوئے، اہم آزمائشوں سے گزرا اور نازی جرمنی کے خلاف فتح میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔

پس منظر

جنگ کے شروع ہونے سے پہلے سوویت اتحاد سیاسی تنہائی اور مغرب کی طرف سے عدم اعتماد کی حالت میں تھا۔ اگست 1939 میں جرمنی کے ساتھ غیر حملہ معاہدہ (مولوتوف-رِببن ٹروپ) کے بعد، اسٹالن نے ناگزیر تنازعہ کو مؤخر کرنے کی امید کی۔ تاہم اس کے بعد جلد ہی جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کیا، جو دوسری عالمی جنگ کا آغاز بنا۔

جنگ کا آغاز

22 جون 1941 کو جرمنی نے غیر حملہ معاہدہ کی خلاف ورزی کی اور سوویت اتحاد میں حملے کے لیے 'بارباروسا' آپریشن شروع کیا۔ یہ عظیم وطن جنگ کا آغاز تھا، جو 9 مئی 1945 تک جاری رہا۔

'بارباروسا' آپریشن

'بارباروسا' آپریشن جرمنوں کی جانب سے تفصیل سے منصوبہ بندی کی گئی تھی اور اس کا مقصد سوویت اتحاد کی سرزمین پر تیز رفتار پیش قدمی کرنا تھا۔ حملے کے بنیادی راستوں میں شامل تھے:

جرمن فوج نے تیزی سے پیش قدمی کی، بڑی بڑی سرزمینوں پر قبضہ کیا اور سرخ فوج کو بھاری نقصانات پہنچائے۔ جنگ کے ابتدائی مہینوں میں سوویت اتحاد نے لاکھوں فوجیوں اور شہریوں کو کھو دیا۔

اہم جنگیں

بھاری نقصانات کے باوجود، سوویت اتحاد نے مزاحمت کرنے اور جوابی حملہ منظم کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ اس دور میں اہم جنگیں بن گئیں:

بطلان اور قربانیاں

سوویت اتحاد نے جنگ کے دوران بھاری نقصانات اٹھائے۔ مختلف تخمینوں کے مطابق، ہلاک شدگان کی تعداد 20 سے 27 ملین افراد کے درمیان تھی، جن میں فوجی اور شہری دونوں شامل ہیں۔ سوویت فوجیوں، پارٹیزانوں اور شہریوں کا بہادری نازیازم کی مزاحمت کا علامت بن گیا۔

عورتوں کا کردار

عورتوں نے جنگ کے دوران اہم کردار ادا کیا۔ وہ نہ صرف کارخانوں میں ہتھیار بنا رہی تھیں بلکہ میدان جنگ میں نرسوں، نشانہ بازوں اور یہاں تک کہ کمانڈروں کے طور پر بھی خدمات انجام دیتی تھیں۔ ایک مثال لیودمیلا پاولچینکو ہے، جو دوسری عالمی جنگ کی ایک معروف نشانہ باز تھیں۔

جنگ کے آخری مراحل

کئی کامیاب آپریشنز جیسے کیف اور بیلگورڈ کی آزادی کے بعد سوویت اتحاد نے مغرب کی طرف حملہ شروع کیا۔ 1945 میں ویسلا-اوڈر آپریشن شروع ہوا، جو برلن کے قبضے پر ختم ہوا۔

برلن آپریشن

برلن آپریشن، جو اپریل سے مئی 1945 تک جاری رہا، یورپ میں جنگ کا عروج تھا۔ سوویت فوج نے نازی جرمنی کے دارالحکومت کو گھیرے میں لے لیا اور اس پر حملہ کیا۔ 2 مئی 1945 کو برلن گر گیا، اور 9 مئی 1945 کو جرمنی کی سرینڈر کا معاہدہ ہوا۔

جنگ کے نتائج

دوسری عالمی جنگ کی فتح سوویت اتحاد اور اس کے اتحادیوں کی ہوئی۔ ملک اس تنازعے سے ہر طرف سے تباہ شدہ معیشت کے ساتھ نکلتا ہے، مگر بین الاقوامی حیثیت میں مستحکم ہوتا ہے۔ سوویت اتحاد دو سپر پاورز میں سے ایک بن گیا، جو سرد جنگ کا آغاز کرتا ہے۔

جنگ کے بعد کے اثرات

جنگ کے بعد کے سال بحالی اور دوبارہ ترقی کا دور تھے۔ ملک نے اقوام متحدہ کے قیام میں حصہ لیا اور سلامتی کونسل کے مستقل اراکین میں سے ایک بن گیا۔ اس دوران ملک کے اندر بھی ان افراد کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہو گئے، جن پر عدم وفاداری کا شک تھا۔

فتح کی شراکت

سوویت اتحاد نے نازیازم کے خلاف فتح میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ جنگ کے اہم میدانوں میں سے ایک بن گیا، جہاں اہم جنگیں ہوئیں۔ فوجی طاقت، تنظیم، اور سوویت فوج کی استقامت نے حتمی فتح میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔

اتحادیوں کے ساتھ تعاون

سیاسی اختلافات کے باوجود، سوویت اتحاد نے مغربی اتحادیوں جیسے امریکہ اور برطانیہ سے تعاون کیا۔ اس تعاون میں لیز کے ذریعے فوجی ساز و سامان اور غذائی اشیاء کی فراہمی شامل تھی، جو سوویت اتحاد کی جنگی کوششوں میں مددگار ثابت ہوئی۔

نتیجہ

دوسری عالمی جنگ میں سوویت اتحاد فاشزم کے خلاف جدوجہد کا علامت بن گیا۔ اس کی بہادری، قربانیاں اور فتوحات خراج تحسین بن کر قوموں کی یادوں میں بسیں گی، اور اس تنازعے سے حاصل ہونے والے اسباق آج کے دور کے لیے اہمیت رکھتے ہیں۔

بانٹنا:

Facebook Twitter LinkedIn WhatsApp Telegram Reddit email

دیگر مضامین: