سوئیڈن کی تاریخ میں نیا دور 18ویں صدی کے آخر سے شروع ہوا اور 19ویں اور 20ویں صدیوں تک جاری رہا۔ یہ زمانہ مطلقہ بادشاہت سے آئینی بادشاہت میں منتقلی کے ساتھ ساتھ ایک منفرد غیر جانبداری کی سیاست کی تشکیل سے منسوب ہے، جو کئی دہائیوں تک ملک کی خارجہ پالیسی کو متعین کرتی رہی۔ یہ تبدیلیاں شہریوں کے حقوق اور آزادیوں کے لیے اندرونی جدوجہد اور ایسے خارجی سیاسی عوامل کی وجہ سے آئیں جنہوں نے روایتی حکمرانی کے طریقوں کا دوبارہ جائزہ لینے کی ضرورت کو تقویت دی۔
سوئیڈن میں آئینی بادشاہت کی تشکیل 19ویں صدی کے آغاز میں ہوئی۔ 1809 کا رِک اسٹاگ ایک اہم سنگ میل تھا، جہاں نئی آئین منظور کی گئی۔ اس دستاویز نے بادشاہ کی طاقت کو محدود کر دیا اور پارلیمانی جمہوریت کی بنیادیں قائم کیں۔ بادشاہ نے اپنی کئی اختیارات کھو دیے، جس کے نتیجے میں ایک زیادہ جمہوری سیاسی نظام کی تشکیل ہوئی، جہاں رِک اسٹاگ، جو دو ایوانوں پر مشتمل تھا، رسماً حکومت کا بنیادی ادارہ بن گیا۔
بنیادی اصلاحات شہری حقوق اور آزادیوں کو یقینی بنانے اور سیاسی جماعتوں کی ترقی کی بنیادیں تیار کرنے کی طرف مرکوز تھیں۔ اس عمل کا ایک اہم پہلو نمائندگی کے اصول کا نفاذ تھا، جس نے مختلف طبقوں کو سیاسی عمل میں شریک ہونے کی اجازت دی۔ یہ تبدیلیاں ایک زیادہ فعال شہری سماج کی تشکیل کی جانب گامزن ہوئیں، جہاں عوام کی رائے ایک اہم کردار ادا کرنے لگی۔
غیر جانبداری سوئیڈن کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم جزو بن گئی، خاص طور پر نیپولین کی جنگوں کے بعد۔ سوئیڈن نے بڑے تنازعات میں شرکت سے بچنے کی کوشش کی، جو یورپ میں پھیل گئے، اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے غیر جانبداری کی پالیسی اختیار کی۔ یہ پالیسی 1814 میں باقاعدہ طور پر اعلان کی گئی، جب سوئیڈن نے نیپولین کی جنگوں سے نکلتے ہوئے اپنی آزادی کو بچانے کے مقصد سے ایسا کیا۔
غیر جانبداری نے نہ صرف ملک کی سلامتی کو یقینی بنایا، بلکہ اس کے بین الاقوامی امیج کی بنیاد بھی بنی۔ سوئیڈن کو بین الاقوامی تنازعات میں ایک امن کے علمبردار اور ثالث کے طور پر دیکھا جانے لگا۔ یہ ملک کو سفارتی کوششوں میں شامل ہونے اور دوسرے ممالک کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو ترقی دینے کی صلاحیت فراہم کرتا ہے۔ غیر جانبداری کی پالیسی نے بھی سوئیڈن کو دو عالمی جنگوں کے دوران بڑے نقصانات سے بچنے میں مدد دی، جو اس کی داخلی استحکام کو مستحکم کرنے میں مددگار ثابت ہوئی۔
سوئیڈن میں نیا دور نہ صرف سیاسی تھا، بلکہ یہ سماجی اور اقتصادی دور بھی تھا۔ اس دوران ملک نے معاشرے کی ساخت اور معیشت میں نمایاں تبدیلیاں دیکھیں۔ صنعتی انقلاب، جو 19ویں صدی کے وسط میں شروع ہوا، نے شہروں کی ترقی اور روایتی پیداوری طریقوں میں تبدیلی کا باعث بنتا۔ سوئیڈن ایک صنعتی ملک بن گیا، جس نے شہری مرکز کی طرف آبادی کی نقل و حرکت اور کام کرنے والی طبقے کی ترقی کا آغاز کیا۔
سماجی اصلاحات، جیسے کہ محنت کی حالت میں بہتری، تعلیمی اور صحت کے نظام کا قیام، نئے دور کے اہم پہلو بن گئے۔ یہ تبدیلیاں ایک زیادہ مساوی اور منصفانہ معاشرے کی تشکیل کی طرف لے گئیں۔ مختلف سماجی تحریکوں نے، جو خواتین، محنت کشوں اور دیگر مظلوم گروہوں کے حقوق کے لیے لڑ رہی تھیں، اس عمل میں اہم کردار ادا کیا۔ معاشرے میں اصلاحاتی سرگرمی نے شہری سرگرمی میں اضافہ اور عوام کی سیاسی معلومات میں بہتری کو ممکن بنایا۔
20ویں صدی کے آخر تک سوئیڈن نے نئے چیلنجز کا سامنا کیا، جیسے عالمی سطح پر، نقل و حمل، اور موسمیاتی تبدیلی۔ ان عوامل نے موجودہ سیاسی اور اقتصادی حکمت عملیوں کا دوبارہ جائزہ لینے کی ضرورت محسوس کروائی۔ اس کے باجود، سوئیڈن نے اپنی بنیادی قدروں، جیسے سماجی مساوات، انسانی حقوق کا احترام، اور بین الاقوامی امور میں فعال شرکت کو برقرار رکھا۔ غیر جانبداری اور انسانی بنیادوں کے اصول سوئیڈن کی خارجہ پالیسی کی بنیاد رہے، جس نے ملک کو بین الاقوامی سطح پر امن کے علمبردار کے طور پر اپنی شناخت برقرار رکھنے کی اجازت دی۔
سوئیڈن کی تاریخ میں نیا دور، جو آئینی بادشاہت اور غیر جانبداری کی سیاست سے متصف ہے، نے ملک کی ترقی پر گہرا اثر مرتب کیا۔ یہ تبدیلیاں نہ صرف داخلی اداروں کو مضبوط بناتی ہیں، بلکہ سوئیڈن کو بین الاقوامی سطح پر ایک مستقل مقام حاصل کرنے کی اجازت دیتی ہیں۔ اس وقت کی سماجی اور اقتصادی اصلاحات نے ایک منصفانہ اور برابر معاشرہ تشکیل دینے میں مدد کی، جو موجودہ دور کے چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے۔ سوئیڈن کا تجربہ دوسرے ممالک کے لیے ایک تحریک ثابت ہو سکتا ہے، جو جمہوری تبدیلیوں اور پائیدار ترقی کی تلاش میں ہیں۔