2011 میں جنوبی سوڈان کی تخلیق نہ صرف اس علاقے کے لیے بلکہ پورے افریقی براعظم کے لیے ایک اہم تاریخی واقعہ تھا۔ دہائیوں کی تنازعات، مصائب اور آزادی کی جدوجہد کے بعد، جنوبی سوڈان افریقہ کا 54 واں ملک بن گیا۔ اس مضمون میں ہم جنوبی سوڈان کی تشکیل سے پہلے کے تاریخی تناظر، اس کے تخلیق کے عمل، اور نئے ملک کو درپیش چیلنجز کا جائزہ لیں گے۔
شمالی اور جنوبی سوڈان کے درمیان تنازعہ کی جڑیں نوآبادیاتی دور میں پھیلی ہوئی ہیں، جب برطانویوں نے سوڈان کا انتظام کیا، عرب شمال اور افریقی جنوب کے درمیان عدم مساوات پیدا کی۔ 1956 میں آزادی حاصل کرنے کے بعد ان علاقوں کے درمیان کشیدگی صرف بڑھ گئی، جس کے نتیجے میں کئی خانہ جنگیاں ہوئیں۔
پہلی خانہ جنگی (1955-1972) کے بعد ایک امن معاہدے پر دستخط ہوئے، جس نے جنوبی علاقوں کو کچھ خود مختاری فراہم کی۔ تاہم، 1983 میں شروع ہونے والی دوسری بغاوت کے بعد، تنازعہ بڑھ گیا، اور ملک میں دوبارہ جنگ چھڑ گئی۔ جنوبی سوڈان، جو کہ جوشوف لاجیو کی قیادت میں سوڈانی عوامی فوج (ایس پی اے) کے زیر انتظام تھا، خود مختاری اور مقامی لوگوں کے حقوق کے لیے لڑتا رہا۔
2005 تک بین الاقوامی برادری، بشمول اقوام متحدہ اور افریقی اتحاد، نے تنازعہ کے پرامن حل کے لیے راستے تلاش کرنے کے لیے فعال مداخلت شروع کر دی۔ نتیجتاً ایک جامع امن معاہدہ (Comprehensive Peace Agreement, CPA) پر دستخط ہوئے، جس نے دوسری خانہ جنگی کو ختم کیا اور جنوبی سوڈان کی آزادی کے لیے ریفرنڈم کے راستے کو کھولا۔
ریفرنڈم جنوری 2011 میں منعقد ہوا اور یہ ایک علامتی واقعہ بن گیا۔ 98% سے زیادہ ووٹرز نے آزادی کے حق میں ووٹ دیا، جو کہ جنوبی سوڈانیوں کی اپنے ملک کے قیام کے لیے خواہش کی تصدیق کرتا ہے۔ ریفرنڈم کے نتائج جنوبی سوڈان کے رسمی قیام کی طرف ایک حتمی قدم بن گئے۔
9 جولائی 2011 کو جنوبی سوڈان کو باقاعدہ طور پر ایک آزاد ملک قرار دیا گیا۔ اس واقعے کا جشن دارالحکومت جوبا میں ہزاروں لوگوں کو جمع کر گیا، جہاں نئے ملک کے جھنڈے لہرائے گئے اور قومی نغمے بجائے گئے۔ جنوبی سوڈان کے صدر سلووا کیر بن گئے، جو پہلے آزادی کی جدوجہد میں ایس پی اے کی قیادت کر چکے تھے۔
جنوبی سوڈان کا قیام اُن لوگوں کے لیے امید کا باعث بنا جو طویل تنازعے کے نتائج سے متاثر تھے۔ تاہم ملک کی تاریخ کے نئے مرحلے میں انتظامی، سیاسی اختلافات اور مستحکم معیشت کی عدم موجودگی کے حوالے سے بڑے مسائل ابھرے۔
اپنے قیام کے وقت سے جنوبی سوڈان کئی اہم چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے:
بین الاقوامی برادری جنوبی سوڈان کو انسانی امداد، ترقیاتی مدد اور اداروں کی تعمیر میں مدد فراہم کرنے کے لیے کام کرتی رہتی ہے۔ البتہ سیاسی عدم استحکام اور جاری تشدد ان کوششوں میں رکاوٹ ڈالتا ہے۔
اقوام متحدہ نے بھی علاقے میں امن فوجیں بھیجی ہیں تاکہ نظم و ضبط قائم کرنے اور شہری آبادی کی حفاظت میں مدد مل سکے۔ تاہم، ان کوششوں کی کامیابی مقامی حکام کی سیاسی مرضی اور بین الاقوامی تنظیموں کی کارروائیوں کی ہم آہنگی پر منحصر ہے۔
جنوبی سوڈان کا مستقبل غیر یقینی ہے۔ قدرتی وسائل کی وافر فراوانی اور لوگوں کی نئی ریاست قائم کرنے کی خواہش کے باوجود، ملک کو داخلی تنازعات کو حل کرنے، معیشت کو بحال کرنے اور مؤثر انتظامات کو ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ اس عمل میں مختلف نسلی اور سیاسی گروہوں کے مصالحت کی کوشش اہم ترین عنصر ہے۔
پائیدار امن اور استحکام حاصل کرنے کے لیے، جنوبی سوڈان کو تعلیم، صحت اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں سرمایہ کاری کرنا چاہیے، تاکہ اپنے شہریوں کے لیے معیاری زندگی کی بہتری ممکن بنائی جا سکے اور طویل مدتی ترقی کے لیے حالات فراہم کیے جا سکیں۔
جنوبی سوڈان کی تخلیق افریقہ کی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل بنی اور آزادی اور خود مختاری کی جدوجہد کی علامت ہے۔ تاہم، آزادی کے ساتھ ساتھ نئے چیلنجز بھی سامنے آئے ہیں، جن کا حل مقامی حکام اور بین الاقوامی برادری دونوں کی توجہ اور کوششوں کا متقاضی ہے۔ صرف امن مندبات اور تعاون کے ذریعے ہی جنوبی سوڈان اپنے مسائل حل کر سکتا ہے اور استحکام و خوشحالی کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔