سوڈان کی آزادی 1956 میں نوآبادیاتی حکومت کے خاتمے کی علامت بن گئی، لیکن یہ نسلی، مذہبی اور سیاسی تنازعات کے نئے چیلنجز کا باعث بنی۔ خانہ جنگی، جو 1955 میں شروع ہوئی، ملک کے شمال اور جنوب کے درمیان کئی سالوں کی ناراضگی اور کشیدگی کا نتیجہ بنی۔ اس مضمون میں ہم سوڈان کی آزادی کی جدوجہد کے اہم مراحل، خانہ جنگی کے اسباب اور اس کے نتائج پر غور کریں گے۔
سوڈان نے 1 جنوری 1956 کو برطانوی-مصری نوآبادیاتی حکومت سے آزادی حاصل کی۔ تاہم آزادی کا راستہ مشکلات سے بھرپور تھا۔ سالوں کی نوآبادیاتی حکومت کے دوران سوڈان میں ایسی طاقت کا غیر مساوی ڈھانچہ تشکیل پایا جو شمالی عربوں کے مفادات کی عکاسی کرتا تھا، جبکہ جنوبی علاقوں کو سیاسی اور اقتصادی زندگی کی periferies پر چھوڑ دیا گیا۔
آزادی سے پہلے مختلف سیاسی جماعتیں اور تحریکیں ابھریں جو جنوبی سوڈانیوں کے لیے نمائندگی اور خودمختاری کا مطالبہ کر رہی تھیں۔ تاہم، زیادہ تر یہ مطالبات نظرانداز کیے گئے۔ نتیجتاً، جنوبی لوگوں نے خود کو مارجنلائز محسوس کیا، جس نے مرکزی حکومت کے خلاف ناراضگی اور نفرت کو بڑھایا۔
سوڈان میں خانہ جنگی 1955 میں شروع ہوئی، آزادی کے اعلان سے پہلے ہی۔ ابتدائی تصادم حکومت کی قوتوں اور جنوبی باغیوں کے درمیان ہوئے، جو خودمختاری اور اپنے حقوق کی حفاظت کا مطالبہ کر رہے تھے۔ یہ تنازعات وسیع پیمانے پر جھڑپوں میں تبدیل ہوگئے جو کئی دہائیوں تک چلتے رہے۔
مرکزی حکومت کے خلاف لڑائی کرنے والی بنیادی مسلح تحریک سوڈانی عوامی فوج (SPA) تھی، جس کی قیادت جوزف لادیو نے کی۔ اس تحریک کو نہ صرف جنوبی آبادی سے بلکہ پڑوسی ممالک جیسے ایتھوپیا اور یوگنڈا سے بھی حمایت حاصل تھی۔ تنازع جلد ہی شدت اختیار کر گیا، جس میں مزید جماعتیں اور گروہ شامل ہوئے۔
خانہ جنگی کے اہم اسباب یہ تھے:
خانہ جنگی بڑے پیمانے پر مصائب، ہلاکتوں اور لاکھوں لوگوں کی نقل مکانی کی وجہ بنی۔ سالوں کے اس تنازع میں سیکڑوں ہزار سوڈانی ہلاک ہوئے، اور لاکھوں نے اپنی جان بچانے کے لیے اپنے گھر چھوڑ دیے۔
تنازع نے بنیادی ڈھانچے اور اقتصادی نظام کی تباہی کا بھی باعث بنی، جس نے جنگ کے بعد بحالی کو مشکل بنا دیا۔ بہت سے اسکولوں، اسپتالوں اور دیگر اہم اداروں کو تباہ کیا گیا، اور بحالی کے لیے بڑی محنت اور وسائل کی ضرورت تھی۔
2000 کی ابتدائی دہائی میں، بین الاقوامی برادری، بشمول اقوام متحدہ اور افریقی یونین، نے صورت حال میں فعال طور پر مداخلت کی، تاکہ تنازع کے پرامن حل تلاش کیے جا سکیں۔ 2005 میں Comprehensive Peace Agreement (CPA) پر دستخط ہوئے، جس نے خانہ جنگی کے خاتمے اور جنوبی سوڈان کے لیے آزادی کے ریفرنڈم کی راہ ہموار کی۔
جنوری 2011 میں ہونے والے ریفرنڈم کے نتیجے میں، جنوبی سوڈان کی 98.83% آبادی نے آزادی کے حق میں ووٹ دیا، جس کے نتیجے میں 9 جولائی 2011 کو ایک نئے ریاست کی تشکیل ہوئی۔ تاہم، خانہ جنگی کے باقاعدہ خاتمے کے باوجود، نئے تنازعات اور سیاسی بحران جنوبی اور شمالی سوڈان دونوں میں جاری رہے۔
سوڈان کی آزادی اور اس کے بعد کی خانہ جنگی نے ملک کی تاریخ میں اہم واقعات کی حیثیت حاصل کی، جو اس کے جدید چہرے کی تشکیل کرتی ہیں۔ آزادی کے باوجود، سوڈان تنازع کے نتائج کا سامنا کرتا رہتا ہے، بشمول نسلی کشیدگی اور اقتصادی مشکلات۔ اس تاریخی پس منظر کو سمجھنا سوڈان کی موجودہ صورت حال کے تجزیے اور طویل مدتی امن اور استحکام کے راستے تلاش کرنے کے لیے اہم ہے۔