سوڈان میں نوآبادیاتی دور تقریباً ایک صدی پر محیط ہے اور یہ 19 صدی کے آخر سے شروع ہوتا ہے، جب برطانوی اور مصریوں نے اس علاقے پر کنٹرول حاصل کیا۔ یہ دور سوڈان کی تاریخ میں ایک اہم مرحلہ بن گیا، کیونکہ اس نے اہم سیاسی، سماجی اور اقتصادی تبدیلیوں کا سبب بنا۔ اس مضمون میں ہم نوآبادیاتی حکمرانی کے اہم واقعات اور نتائج پر غور کریں گے، جن میں برطانوی-مصری انتظامیہ، معیشت میں تبدیلیاں، تعلیم، اور وہ قوم پرست تحریکیں شامل ہیں جو نوآبادیاتی حکومت کے جواب میں ابھریں۔
19 صدی کے آخر میں، مہدی کی سلطنت کے زوال کے بعد سوڈان کے نئے فاتحانہ حالات پیدا ہوئے۔ 1898 میں، معرکہ اُم درمان میں فتح کے بعد، جنرل ہارڈر کی قیادت میں برطانوی افواج اور حسن کی قیادت میں مصری افواج نے سوڈان پر کنٹرول حاصل کیا۔ برطانویوں نے اس خطے میں اپنے اثر و رسوخ کو مضبوط کرنے اور تجارت و وسائل پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں مشترکہ برطانوی-مصری انتظامیہ کا قیام عمل میں آیا۔
برطانویوں نے اپنی فوجی اور انتظامی مہارت کو سوڈان کے انتظام کے لیے استعمال کیا، ایسی ساخت تیار کی جو انہیں مقامی قبائل اور وسائل پر کنٹرول کرنے کی اجازت دیتی تھی۔ انہوں نے مرکزی حکومت قائم کی، نئی ٹیکس کے نظام کو متعارف کرایا اور مقامی رسومات اور روایات میں تبدیلیاں کیں۔
نوآبادیاتی حکمرانی نے سوڈان کی اقتصادی ساخت میں قابل ذکر تبدیلیاں کیں۔ برطانویوں نے نئی زرعی طریقے متعارف کرائے اور خاص طور پر کپاس کے شعبے میں زراعت میں توسیع کی۔ سوڈان برطانوی ٹیکسٹائل فیکٹریوں کے لیے خام مال فراہم کرنے والا ایک اہم ملک بن گیا، جس کا مقامی معیشت پر گہرا اثر ہوا۔
اسی دوران برطانوی حکمرانی نے مقامی وسائل کے نئے استحصال کی شکلیں متعارف کرائیں، جس سے آبادی میں بے چینی پیدا ہوئی۔ مقامی کسان اکثر بلند ٹیکسوں اور برطانوی ضروریات کے لیے پیداوار کے مطالبات کا سامنا کرتے رہے۔ اس نے خاص طور پر کسانوں میں احتجاجات اور ناراضگی کا باعث بنا، جو سیاسی و اقتصادی دباؤ کے شکار تھے۔
برطانوی-مصری حکومت نے سوڈان کی سماجی ساخت پر نمایاں اثر ڈالا۔ برطانویوں نے ایک نئی تعلیمی نظام قائم کرنے کی کوشش کی، جو مغربی نمونوں کی بنیاد پر تھی۔ نئی اسکولیں اور تعلیمی ادارے کھولے گئے، جس سے تعلیم یافتہ سوڈانیوں کی تعداد بڑھ گئی، حالانکہ تعلیم تک رسائی اکثر غریبوں اور خواتین کے لیے محدود تھی۔
تاہم، نوآبادیاتی حکمرانی نے روایتی سماجی ڈھانچے اور ثقافتی روایات کی تباہی میں بھی مدد کی۔ مقامی رسومات اور مذہبی روایات اکثر نظر انداز یا مذمت کی گئیں، جس سے مقامی آبادی میں مزاحمت اور ناراضگی پیدا ہوئی۔
نوآبادیاتی حکومت کے پس منظر میں سوڈان میں قوم پرست تحریکیں ابھرنے لگیں، جو آزادی اور خود مختاری کی کوشش کر رہی تھیں۔ پہلی تنظیمیں 20 صدی کے آغاز میں تشکیل پائیں اور وہ آزادی اور قومی خود آگہی کے خیالات سے متاثر تھیں۔
ایک پہلی اہم تنظیم سوڈانی پارٹی آف انڈیپنڈنس تھی، جس کا قیام 1945 میں ہوا۔ اس نے مختلف گروہوں کو اکٹھا کیا جو نوآبادیاتی حکمرانی کے خاتمے کے خواہاں تھے۔ پارٹی نے سیاسی اصلاحات کی اپیل کی اور مقامی لوگوں کی حکومت میں زیادہ شمولیت کی وکالت کی۔
دوسری عالمی جنگ کے خاتمے اور یورپی طاقتوں کی کمزوری کے بعد، آزادی کی پکاریں زیادہ بلند ہو گئیں۔ 1948 میں ایک بڑے احتجاجی مظاہرے کا مقام، جو "سوڈانی بہار" کے نام سے جانا جاتا ہے، نوآبادیاتی حکومت کے خلاف بڑھتی ہوئی ناراضگی کو ظاہر کرتا ہے۔
1950 کی دہائی میں، بین الاقوامی دباؤ اور عالمی سیاست میں تبدیلیوں کے تناظر میں، برطانوی حکومت نے سوڈان کو آزادی دینے کے امکان پر غور کرنا شروع کیا۔ 1956 میں سوڈان کو آزادی ملی، لیکن یہ عمل آسان نہیں تھا۔ قوم پرست تحریکیں جو آزادی کے لیے لڑ رہی تھیں، اکثر داخلی تنازعات اور نسلی تناؤ کا سامنا کرتی تھیں۔
سوڈان کی آزادی کو بڑے جوش و خروش سے منایا گیا، مگر یہ بھی نسلی اور مذہبی اختلافات سے متعلق نئی چیلنجز لائی۔ ملک کو اپنی آبادی کی تنوع کو مد نظر رکھتے ہوئے نئی سیاسی نظام کی تشکیل کی ضرورت کا سامنا کرنا پڑا۔
سوڈان میں نوآبادیاتی دور نے ملک کی تاریخ پر گہرا اثر چھوڑا، اس کی سیاسی، سماجی اور اقتصادی ڈھانچوں کو کئی سالوں کے لیے متعین کیا۔ برطانوی-مصری حکمرانی نے نہ صرف معیشت اور تعلیمی نظام میں تبدیلیاں کیں، بلکہ قوم پرست تحریکوں کی بھی راہ ہموار کی، جو آخرکار نوآبادیاتی حکمرانی کا خاتمہ بنیں۔ اس دور کی تفہیم جدید سوڈان اور مختلف نسلی اور ثقافتی گروہوں کے مابین پیچیدہ تعلقات کا تجزیہ کرنے کے لیے کلید ہے۔