دلائی لامہ XIV، جن کا نام ٹینزین گیاتسو ہے، تبت بدھ مت کے روحانی رہنما اور امن و شفقت کی علامت ہیں۔ 1950 میں ان کی تقرری کے بعد، وہ صرف مذہبی رہنما نہیں بلکہ تبت کے سیاسی رہنما بھی بن گئے، جو تبت کی ثقافت اور اپنے لوگوں کی خود مختاری کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس مضمون میں ہم ان کی زندگی، تعلیمات اور جدید دنیا پر ان کے اثرات کا جائزہ لیں گے۔
دلائی لامہ XIV 6 جولائی 1935 کو مشرقی تبت کے گاؤں ٹھُپٹشن میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان کسانوں سے تعلق رکھتا تھا، اور وہ سات بچوں میں چوتھے نمبر پر تھے۔ تین سال کی عمر میں انہیں دلائی لامہ XIII کی تجدید پیدا ہونے کا اعلان کیا گیا، جو 1933 میں فوت ہوگئے تھے۔ اس لمحے سے ان کی زندگی روحانی رہنما کی حیثیت سے تعلیم و تربیت کے لیے وقف ہوگئی۔
1940 میں ٹینزین گیاتسو کو باضابطہ طور پر دلائی لامہ کے طور پر اعلان کیا گیا اور انہوں نے خانقاہ میں اپنی تعلیم کا آغاز کیا۔ انہوں نے بدھ مت، تبت کی طب، فلسفہ اور دیگر علوم کا مطالعہ کیا۔ 1950 میں، چینی افواج کے تبت میں داخلے کے بعد، انہیں اضافی سیاسی ذمہ داریاں اٹھانی پڑیں، جو تبت کے لوگوں کے لیے مشکل وقت کا آغاز بن گئی۔
1950 سے دلائی لامہ XIV چینی حکومت کی بڑھتی ہوئی دباؤ کا سامنا کر رہے تھے، جو تبت کو چین کے اندر ضم کرنا چاہتی تھی۔ 1951 میں تبت اور چینی نمائندوں کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا، جس کے مطابق تبت کو چین کا خود مختار علاقہ بننے کی ضرورت تھی، تاہم بہت سے تبت کے لوگوں نے اس معاہدے کو جبری سمجھا۔
1959 میں لہاسہ میں چینی حکومت کے خلاف ایک بغاوت پھوٹ پڑی، اور دلائی لامہ کو بھارت کی طرف فرار ہونا پڑا، جہاں انہیں پناہ دی گئی۔ انہوں نے تبت کے حقوق کے لیے آواز اٹھانا جاری رکھا اور اپنے لوگوں کے مسائل پر عالمی برادری کی توجہ مبذول کرائی۔ 1960 میں انہوں نے دھرم شالا میں تبت کی جلاوطن حکومت کی بنیاد رکھی، جہاں وہ آج بھی رہائش پذیر ہیں۔
دلائی لامہ XIV دنیا کے سب سے مشہور بدھ مت رہنما بن گئے ہیں۔ وہ عدم تشدد، شفقت اور برداشت کی تعلیم کی وکالت کرتے ہیں۔ ان کی فلسفہ بدھ مت کے اصولوں پر مبنی ہے، جس میں خالی پن اور باہمی انحصار کی تعلیمات شامل ہیں۔ دلائی لامہ مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے درمیان ہم آہنگی کی وکالت کرتے ہیں اور مختلف اعتقادات کے درمیان مکالمے کی فعال حمایت کرتے ہیں۔
وہ دنیا بھر میں لیکچرز اور سمینارز کا اہتمام کرتے ہیں، بدھ مت اور مراقبت کی مشق کے بارے میں اپنے تجربات اور علم کو بانٹتے ہیں۔ دلائی لامہ مختلف کتابوں کے مصنف بھی ہیں، جن میں وہ روحانیات، اخلاقیات اور اخلاقی اقدار کے مسائل پر گفتگو کرتے ہیں۔ ان کے کام دنیا بھر کے لوگوں کو متاثر کرتے ہیں اور انہیں اندرونی سکون اور سمجھ بوجھ حاصل کرنے میں مدد دیتے ہیں۔
دلائی لامہ XIV امن اور عدم تشدد کی علامت بن گئے ہیں۔ 1989 میں، انہیں تبت کے حقوق کے لیے جدوجہد اور چینی حکومت کے خلاف عدم تشدد کے مزاحمت کے لئے نوبل امن انعام سے نوازا گیا۔ اس انعام نے ان کے بین الاقوامی وقار کو بڑھایا اور تبت کے مسائل کی توجہ دلائی۔
تب سے لے کر آج تک، وہ امن اور انصاف کے حق میں آواز اٹھاتے رہیں، دنیا بھر میں سفر کرتے ہوئے سیاسی رہنماؤں، سائنسدانوں اور فنکاروں سے ملتے ہیں۔ دلائی لامہ ماحولیاتی پائیداری اور انسانی حقوق کے تحفظ کے تحریک کی فعال حمایت کرتے ہیں، زندگی کے لئے اخلاقی نقطہ نظر کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔
دلائی لامہ XIV کو اپنی سادہ طرز زندگی اور لوگوں کے ساتھ مخلصانہ رویہ کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ وہ کئی بار یہ زور دے چکے ہیں کہ وہ خود کو ایک مقدس شخصیت نہیں سمجھتے، بلکہ ایک ایسا انسان ہیں جو دنیا میں خوشی اور شفقت لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان کا احساس مزاح اور کھلے پن لوگوں کو متوجہ کرتا ہے، اور بہت سے لوگ انہیں دوست اور معلم سمجھتے ہیں۔
روحانی اور سیاسی فعالیت کے علاوہ، دلائی لامہ سائنس اور تعلیم میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ نفسیات اور نیوروبائیولوجی کے میدان میں تحقیق کی فعال حمایت کرتے ہیں، بدھ مت کی فلسفہ کو جدید سائنسی دریافتوں کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دنیا بھر کے سائنسدانوں کے ساتھ ان کا تعاون روحانیت اور سائنس کے درمیان پل تعمیر کرتا ہے۔
دلائی لامہ XIV ایک زندہ تاریخ اور موجودہ تاریخ کی اہم شخصیت بن چکے ہیں۔ ان کی تعلیمات جو شفقت، امن اور عدم تشدد پر مبنی ہے لوگوں کے ہر عمر اور عقیدے والوں کو متاثر کرتی ہے۔ اپنی مشکلات کے باوجود، وہ تبت کے لوگوں اور پوری انسانیت کی بھلائی کے لیے کام کرنا جاری رکھتے ہیں۔
آج دلائی لامہ بہت سے لوگوں کے لئے امید کی علامت ہیں۔ ان کے امن، سمجھ بوجھ اور باہمی احترام کے مطالبات لاکھوں دلوں میں گونجتے ہیں۔ نئی نسلیں ان کی تعلیمات سے واقف ہوتی ہیں، جس سے ان کا ورثہ ابدی بنتا ہے۔
دلائی لامہ XIV صرف ایک روحانی رہنما نہیں بلکہ امن، شفقت اور انسانیت کی علامت ہیں۔ ان کی زندگی اور کام ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک زیادہ پرامن اور منصفانہ دنیا کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔ ان کی تعلیمات دنیا بھر میں لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتی رہتی ہیں، اور ان کا اثر ان کے انتقال کے بعد بھی محسوس کیا جائے گا۔