ایتھوپیا دنیا کے قدیم اور منفرد ریاستی نظاموں میں سے ایک ہے۔ اپنی ابتدا سے ہی، قدیم دور سے لے کر جدید دور تک، ملک نے اپنے ریاستی ڈھانچے میں بہت سی تبدیلیوں کا سامنا کیا۔ یہ تبدیلیاں داخلی سیاسی عمل کے ساتھ ساتھ بیرونی عوامل جیسے کہ نوآبادیات، بین الاقوامی تعلقات اور داخلی سماجی و اقتصادی تبدیلیوں کی عکاسی کرتی ہیں۔ ایتھوپیا کے ریاستی نظام کی ترقی میں کئی اہم مراحل شامل ہیں، جن میں ہر ایک کی وضاحت مخصوص سیاسی، سماجی اور ثقافتی تبدیلیوں سے ہوتی ہے۔
جدید ایتھوپیا کے علاقے میں مشہور سیاسی تشکیلوں میں سے ایک قدیم مملکت اکسوم تھی، جو پہلی صدی قبل مسیح سے ساتویں صدی عیسوی تک موجود تھی۔ یہ ریاست مشرقی افریقہ میں طاقت کا ایک مضبوط مرکز بن گیا اور روم، ہندوستان اور عرب ممالک کے ساتھ اعلی ترقی یافتہ تجارتی تعلقات کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ اکسوم نے آرکیٹیکچرل یادگاروں، تحریری ذرائع اور ایتھوپیا میں عیسایت کی ترقی کا ایک بڑا ورثہ چھوڑا۔
اس دور میں ریاستی نظام بادشاہت پر مبنی تھا، جس میں طاقت بادشاہ کے ہاتھوں میں مرکوز تھی، جسے زمین پر خدا کا نمائندہ سمجھا جاتا تھا۔ اکسوم میں حکمرانی کرنے والی سلطنت نے ایک مضبوط مرکزیت والی انتظامیہ قائم کی، جو اہم تجارتی راستوں اور علاقائی وسعتوں کو کنٹرول کرتی تھی۔ چوتھی صدی میں عیسایت ریاستی مذہب بن گیا، جس کا ریاستی نظام اور ایتھوپیا کی ثقافت کی ترقی پر گہرا اثر پڑا۔
اکسوم کی سلطنت کے ساتویں صدی میں زوال اور درمیانی دور میں داخل ہونے کے ساتھ، ایتھوپیا کا سیاسی نظام میں اہم تبدیلیاں آئیں۔ اس وقت ایک نئی حکومتی شکل ابھری، جو جاگیرداری پر مبنی تھی۔ بادشاہوں نے سیاسی نظام میں مرکزی مقام برقرار رکھا، مگر ان کی طاقت مقامی جاگیرداروں کی جانب سے محدود کر دی گئی، جن کے پاس کافی خود مختاری تھی۔
اس دور میں زارا یعقوب اور سلیمانی سلطنت جیسے خاندانوں نے اہم کردار ادا کیا، جو بارہویں صدی سے بیسویں صدی کے آغاز تک موجود رہے۔ بادشاہ اپنی الہی طاقت کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتے رہے، مگر اسی دوران ملک کے حدود کے باہر کچھ آزاد ریاستیں اور ریاستیں بھی وجود میں آئیں، جو کبھی کبھار مرکزی طاقت سے متصادم رہتیں۔
اس دور میں چرچ کا کردار بھی اہمیت کا حامل تھا، جس نے نہ صرف روحانی طور پر عوام پر اثر ڈالا بلکہ انتظامیہ میں بھی فعال شرکت کی۔ چرچ کے خانقاہیں علم و قوت کے اہم مراکز بن گئے، جس سے ملک میں خواندگی اور صحت کی بہتری کے لیے معاونت ملی۔
انیسوی صدی کے آخر میں، ایتھوپیا نے یورپی طاقتوں، خاص طور پر اٹلی کی جانب سے نوآبادی کی دھمکی کا سامنا کیا۔ تاہم، افریقی ممالک کی اکثریت کے برعکس، ایتھوپیا نے اپنی آزادی کا دفاع کیا۔ اٹھارہ سو چھیانوے میں، بادشاہ مینلیک II کی قیادت میں، ایتھوپیائی فوج نے ادوہ کی جنگ میں فتح حاصل کی، جو نہ صرف ایتھوپیا کی تاریخ میں بلکہ پورے براعظم کی تاریخ میں ایک اہم نام تھا، جس نے یہ ظاہر کیا کہ افریقہ نوآبادیاتی جارحیت کے خلاف مزاحمت کر سکتا ہے۔
تاہم، انیس سو پانچ میں ایتھوپیا پر بینیتو موسولینی کی قیادت میں اٹلی نے قبضہ کر لیا۔ یہ دور ملک کے لیے سخت تھا، مگر دوسری جنگ عظیم کے بعد ایتھوپیا نے دوبارہ اپنی آزادی حاصل کی، جب برطانوی افواج نے مدد کی، اور بادشاہ ہیلے سیلاسی 1941 میں دوبارہ اقتدار میں آئے۔
بیسویں صدی کے آغاز میں ایتھوپیا افریقی ممالک میں سے ایک تھا جس نے اپنی آزادی برقرار رکھی۔ بادشاہ ہیلے سیلاسی، جو 1930 میں تخت نشین ہوئے، ملک کی تاریخ میں ایک اہم شخصیت بن گئے۔ انہوں نے معیشت، تعلیم اور بنیادی ڈھانچے میں بہت سی اصلاحات کیں۔ ہیلے سیلاسی بین الاقوامی سطح پر ایک اہم شخصیت بن گئے، اور انہوں نے 1963 میں افریقی اتحاد کی تنظیم کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا، جو افریقی ممالک کے اتحاد اور ان کی آزادی کے تحفظ کا مقصد رکھتا تھا۔
تاہم، بیرونی کامیابیوں کے باوجود، داخلی مسائل جیسے غربت، سماجی عدم مساوات اور بدعنوانی برقرار رہے۔ یہ مسائل بالآخر 1974 کی انقلاب کا باعث بنے، جس کے نتیجے میں ہیلے سیلاسی معزول ہو گئے۔
انقلاب کے بعد ملک میں سوشلسٹ ایتھوپیا کی مزدور پارٹی کو اقتدار ملا، جس کی قیادت منگستو ہیلے ماریام کر رہے تھے۔ یہ نئی نظام مارکسی اصولوں پر مبنی تھی اور ملک کو سوشلسٹ تبدیلی کی طرف لے جانے کے لیے تھی۔ تاہم سخت سیاسی دباؤ، اقتصادی مشکلات اور فوجی تنازعات کی وجہ سے منگستو کی حکومت 1991 میں معزول ہو گئی۔
1991 میں سوشلسٹ حکومت کے زوال کے بعد ایتھوپیا نے ایک نئی آئین کو اپنایا، جس نے وفاقیت کے نظام کو قائم کیا۔ نئے آئین کے مطابق، ایتھوپیا کو کئی علاقوں میں تقسیم کیا گیا، جن میں ہر ایک کو مخصوص حد تک خود مختاری حاصل تھی۔ یہ فیصلہ ایتھوپیا میں مختلف نسلی اور لسانی گروہوں کے درمیان توازن قائم کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔
آخری دہائیوں میں ایتھوپیا نے اپنی معیشت کو ترقی دینے میں سرگرمی دکھائی، باوجود سیاسی عدم استحکام اور داخلی تنازعات کے۔ 2018 میں، نئے وزیر اعظم ابی احمد نے جمہوریت اور انسانی حقوق کے بہتری کے لیے سیاسی اصلاحات کا آغاز کیا۔ ان تبدیلیوں میں ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کی بہتری، سنسرشپ کا خاتمہ اور شہری آزادیوں کو مضبوط کرنا شامل ہیں۔
ایتھوپیا کے ریاستی نظام کی ترقی قدیم سلطنتوں سے لے کر جدید وفاقیت تک یہ مثال پیش کرتی ہے کہ ملک نے داخلی اور خارجی چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے ایک مستحکم اور پائیدار سیاسی نظام قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایتھوپیا کی تاریخ میں ہر دور نے ریاست کے سیاسی اور سماجی ڈھانچے میں اپنا نشان چھوڑا، اور موجودہ اصلاحات ایک زیادہ جمہوری اور شمولیتی نظام کے قیام کی جانب لے جا رہی ہیں، جو کثیر النسلی معاشرے کے مسائل کو مؤثر طریقے سے حل کرنے کے قابل ہو۔