1950 کی دہائی میں بہت سے اہم واقعات پیش آئے، جو جدید مصنوعی ذہانت (AI) کی بنیاد بنے۔ یہ دور مشین لرننگ اور معلومات کی پروسیسنگ خودکار بنانے کی تحقیق کے آغاز کی خصوصیت رکھتا ہے۔ ابتدا میں، AI کے نظریات زبان دانی، ریاضی، منطق، اور نیوروبایولوجی سے متاثر تھے۔ اس مضمون میں، ہم مصنوعی ذہانت کے تصور کی تشکیل کے بنیادی مراحل اور اس کے ابتدائی عملی نمونوں پر غور کریں گے۔
مصنوعی ذہانت کی سائنس کی بنیادیں بیسویں صدی کے آغاز میں رکھی گئیں، تاہم 1950 کی دہائی میں ان نظریات کا عملی استعمال شروع کرنا ممکن ہو سکا۔ ایک اہم قدم ایلن ٹوریگ کی کاوش تھی، جس نے 1950 میں "کمپیوٹنگ مشینری اینڈ انٹیلیجنس" کے عنوان سے ایک مضمون شائع کیا۔ اس میں انہوں نے ایک ٹیسٹ پیش کیا، جو آج "ٹوریگ ٹیسٹ" کے نام سے جانا جاتا ہے، تاکہ کوئی مشین انسانی جیسے عقلی عمل کو ظاہر کر سکنے کی صلاحیت کی تشخیص کی جا سکے۔
1956 میں، ڈارٹ موث کالج میں ایک کانفرنس ہوئی، جو مصنوعی ذہانت کی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل بنی۔ اس میں جان مک کارتی، مارون منسکی، نورتھ ڈیوڈسن، اور دیگر ایسے محققین شامل تھے۔ انہوں نے اس بات پر بات چیت کی کہ کیسے عقلی مشینیں تیار کی جا سکتی ہیں، اور یہ متوقع کیا کہ "تعلیم یا کسی دوسرے ذہنی عمل کے ہر پہلو کو اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ مشین انسانی سلوک کی نقالی کر سکے۔" یہ کانفرنس اس شعبے میں تحقیق کی ترقی کے لیے ایک ابتدائی نقطہ ثابت ہوئی۔
ڈارٹ موث کانفرنس کے بعد، پہلی AI پروگراموں کی ترقی کی کوششیں شروع ہوئیں۔ ایک اہم کامیابی 1958 میں جان مک کارتی کی جانب سے تخلیق کردہ Lisp پروگرامنگ زبان تھی۔ یہ زبان AI کے ساتھ کام کرنے کے لیے ایک بنیادی ٹول بن گئی اور اسے علامتوں اور فہرستوں کو آسانی سے ہنر کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے استعمال کیا گیا۔
1956 میں "Logic Theorist" نامی پروگرام بھی بنایا گیا، جو ایلن نیوئیل اور ہربرٹ سائیمن کی جانب سے تیار کردہ تھا۔ یہ پروگرام منطقی مسائل کو حل کرسکتا تھا اور یہ انسانی سوچ کی طرح مسائل حل کرنے کی پہلی کوششوں میں سے ایک تھا۔
1950 کی دہائی کے آخر تک، AI میں دلچسپی میں نمایاں اضافہ ہوا، اور متعدد یونیورسٹیاں اور لیبارٹریاں مختلف مسائل کے حل کے قابل پروگراموں پر کام کرنے لگیں۔ اس وقت مختلف طریقے بھی سامنے آئے جن میں نیورل نیٹ ورک، جینیاتی الگورڈمز اور دیگر طریقوں کا استعمال شامل تھا۔ تاہم، توقعات کے بڑھنے کے ساتھ، اس وقت کی ٹیکنالوجی کی حدود کے ساتھ پہلی مایوسیاں بھی آئیں۔
1960 کی دہائی کے وسط تک، یہ واضح ہو گیا کہ حقیقی ذہین مشینیں تخلیق کرنے کی کوششیں سنگین مسائل کا سامنا کر رہی ہیں۔ ایسے پروگرام، جیسے "SHRDLU"، قدرتی زبان کو محدود ماحول میں پروسیس کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے، لیکن وہ اس سے آگے نہیں بڑھ پائے۔ زیادہ پیچیدہ مسائل، جیسے سیاق و سباق کو سمجھنا اور غیر واضح معلومات کی تفسیر کرنا، سے متوقع نتائج حاصل نہیں کیے جا سکے۔ یہ پہلے "AI سردی" کا باعث بنا، جب تحقیق کے لیے مالی اعانت اور دلچسپی میں اچانک کمی آئی۔
تاہم، 1970 اور 1980 کی دہائیوں میں AI کی تحقیق دوبارہ مقبول ہونے لگی۔ قدرتی زبان کی پروسیسنگ میں پیش رفت، ماہر نظاموں کی تخلیق اور کمپیوٹنگ کی طاقت میں تیز تبدیلیوں نے نئی دلچسپی کی لہر کو جنم دیا۔ یہ ماہر نظام مختلف شعبوں، جیسے طب، مالیات، اور پیداوار میں استعمال ہوئے۔
اس طرح، 1950 کی دہائی مصنوعی ذہانت کی ایک سائنسی ڈسپلن کے طور پر ترقی کے لیے ایک اہم دور ثابت ہوئی۔ منطق اور ریاضی کی بنیاد پر ابتدائی تصورات اور نظریات سے لے کر پہلے پروگراموں اور پروگرامنگ زبانوں تک — یہ دور AI کی مستقبل کی ترقی کے لیے بنیادیں فراہم کرتا ہے۔ رکاوٹوں اور وقتی تاخیر کے باوجود، اس وقت پیدا ہونے والے نظریات آج بھی ترقی کر رہے ہیں اور نئے نسل کے محققین کو زیادہ ترقی یافتہ اور ذہین مشینیں تخلیق کرنے کے لیے متاثر کر رہے ہیں۔