عراق کی آزادی، جو 3 اکتوبر 1932 کو اعلان کی گئی، ملک کی تاریخ میں ایک اہم واقعہ بنی، جس نے برطانوی مینڈیٹ کے خاتمے اور عراق کی سیاسی، اقتصادی اور سماجی ترقی کے نئے مرحلے کے آغاز کی علامت بنائی۔ اس دور کی خصوصیات قومی شناخت کے لئے جدوجہد، ایک آزاد ریاستی ڈھانچے کی تشکیل اور ایسے اثرات تھے جنہوں نے دہائیوں تک ملک پر اثر انداز کیا۔
20ویں صدی کے آغاز میں عراق عثمانی سلطنت کے کنٹرول میں تھا۔ تاہم پہلی جنگ عظیم کے بعد، جب سلطنت ٹوٹ گئی، عراق برطانیہ کی مینڈیٹ ریاست بن گیا۔ برطانوی حکومت نے مقامی آبادی میں عدم اطمینان پیدا کیا اور قومی تحریک کی فعالیت میں اضافہ کیا۔
1920 میں، لیگ آف نیشنز نے برطانیہ کو عراق کے انتظام کا مینڈیٹ دیا۔ حالانکہ برطانوی انتظامیہ نے اصلاحات کرنے اور ملک کو آزادی کے لئے تیار کرنے کا وعدہ کیا، تاہم عملاً کنٹرول سخت رہا۔ مقامی سیاسی تحریکوں نے بڑی خود مختاری کا مطالبہ شروع کیا، جس کا نتیجہ بغاوتوں اور احتجاجات کی صورت میں نکلا۔
1920 کی دہائی کے آغاز سے عراقی قومی تحریک نے زور پکڑنا شروع کیا۔ مقامی سیاسی پارٹیاں، جیسے "قومی ایسوسی ایشن" اور "عراقی عوامی پارٹی"، آزادی کے لئے سرگرم عمل رہیں۔ 1921 میں شاہ فیصل اول کے ساتھ ایک شاہی نظام قائم کیا گیا، جس نے تبدیلی کی امید بڑھائی۔
آزادی کے اعلان سے پہلے کچھ اہم واقعات پیش آئے:
طویل مذاکرات کے بعد، 3 اکتوبر 1932 کو عراق کو باقاعدہ طور پر ایک آزاد ریاست قرار دیا گیا۔ اس سال "عراقی آئین" پر دستخط کیے گئے، جو نئی سیاسی نظام کی تشکیل کی جانب ایک اہم قدم تھا۔ آزادی کا استقبال جوش و خروش سے کیا گیا، تاہم آزاد ریاست کی تشکیل کا عمل بہت آسان نہیں تھا۔
آزادی کا مطلب عراق کے لئے مسائل کا خاتمہ نہیں تھا۔ سیاسی عدم استحکام، نسلی تنازعات اور اقتصادی مشکلات نئے ملک کے سامنے اہم چیلنجز بن گئیں۔
آزادی کے اعلان کے بعد، عراق نے ایک خودمختار ریاست کے طور پر ترقی کرنے کا آغاز کیا۔ ملک نے بین الاقوامی امور میں سرگرم حصہ لیا اور مشرق وسطیٰ میں اپنی پوزیشن کو مضبوط بنانے کی کوشش کی۔
1930 کی دہائی میں عراق میں سیاسی اصلاحات کی کوششیں ہوئیں۔ ایک نئے آئین کی تشکیل کی گئی، جس میں شہریوں کے حقوق اور طاقت کی تقسیم شامل تھی۔ تاہم، یہ اصلاحات ہمیشہ عملی شکل اختیار نہیں کر پائیں، اور سیاسی لڑائی جاری رہی۔
عراق کی معیشت تیل کے وسائل پر مرکوز ہو گئی، جس نے بیرونی سرمایہ کاری کو متوجہ کیا اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی کی۔ ملک نے تیل کی برآمد شروع کی، جو آمدنی کا بنیادی ذریعہ بن گئی۔
عراق کی آزادی نے ملک کی ثقافتی زندگی پر بھی نمایاں اثر ڈالا۔ 1930 کی دہائی کے آغاز میں عراقی ادب، موسیقی اور فنون لطیفہ میں تیزی آئی۔
اس وقت ایسے کام سامنے آنے لگے جو قومی شناخت اور آزادی کی خواہش کو عکاسی کرتے تھے۔ عراقی لکھاری، جیسے تحسین الخاتیب اور سالم محمود، نے اپنے کامات کی اشاعت شروع کی، جس نے عراقی ادب کی ترقی میں مدد کی۔
موسیقی میں بھی تبدیلیاں آئیں، جب مقامی فنکاروں نے ایسے کام تخلیق کرنا شروع کیے جو عراقی ثقافت اور روایات کو عکاسی کرتے تھے۔ اس علاقے کے زیادہ تر آلات اور موسیقی کی طرزیں مقامی لوگوں میں مقبول ہو گئیں۔
1932 میں عراق کی آزادی ملک کی تاریخ میں ایک اہم مرحلہ بنی، جو آزادی اور خود اختیاری کی خواہش کی علامت ہے۔ اگرچہ یہ دور بہت سے چیلنجز اور مشکلات سے بھرا ہوا تھا، لیکن یہ عراق کے ایک خود مختار ریاست کے طور پر مزید ترقی کی بنیاد کے طور پر ثابت ہوا۔ ملک اب بھی آزادی اور تاریخ کے نتائج کا سامنا کر رہا ہے، جو اس کی شناخت اور دنیا میں اس کی جگہ کو تشکیل دیتی ہے۔