عراق ایک ایسا ملک ہے جس کی تاریخ نہایت ثروت مند اور طویل ہے، جو ہزاروں سالوں سے عظیم تہذیبوں جیسے کہ سمر، اکد، بابل اور اشوریہ کا مرکز رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں، عراق کی قومی علامتوں میں متعدد تبدیلیاں واقع ہوئیں، جو نہ صرف قدیم وراثت کی عکاسی کرتی ہیں بلکہ جدید سیاسی اور سماجی تبدیلیاں بھی۔ ملک کے جھنڈے، نشان اور دیگر علامتوں کی تاریخ عراق کی طویل تاریخ کے دوران ملک میں ہونے والے اہم واقعات سے گہرائی سے جڑی ہوئی ہے۔
جدید قومی علامتوں کے ظہور سے پہلے، عراق کی سرزمین پر ایسی علامتیں اور نشانات استعمال ہوتے تھے جو قدیم تہذیبوں کی عظمت کے عکاس تھے۔ سمر، اکد اور بابل کے دور میں مختلف خداؤں، افسانوی مخلوق اور فلکیاتی علامتوں کی تصاویر استعمال کی جاتی تھیں۔ ان میں سے ایک مشہور علامت ایک بار ریلیف تھی جس میں شیر کی تصویر تھی، جو قوت اور طاقت کی علامت تھی۔ اشوری سلطنت میں پروں والے بیلوں اور عقابوں کی علامتیں خاص اہمیت رکھتی تھیں، جو حکام کی حفاظتی اور الٰہی قوت کی مروج کرتی تھیں۔
اس کے علاوہ، مذہبی عقائد بھی علامتوں پر کافی اثر انداز ہوتے تھے، جو سورج، چاند اور ستاروں کے خداؤں کی عبادت کرتے تھے۔ ان خداؤں کی علامتیں قومی حیثیت کے تعین اور بادشاہوں کی طاقت کی تصدیق کے لئے استعمال کی جاتی تھیں۔ اس دور میں کوئی سرکاری جھنڈے نہیں تھے، لیکن نشانوں اور اسٹیندارڈز نے شہر ریاستوں اور سلطنتوں کی شناخت میں اہم کردار ادا کیا۔
ساتویں صدی سے شروع ہو کر، جب عراق عرب خلافت کا حصہ بنا، قومی علامتوں میں نمایاں تبدیلیاں آئیں۔ عباسی خاندان کے دور میں، جب بغداد خلافت کا دار الحکومت بنا، تو علامتوں نے اسلامی خصوصیات اختیار کر لیں۔ اس وقت کا بنیادی نشان عباسیوں کا سیاہ جھنڈا تھا، جو طاقت اور قوت کی علامت تھا۔ اس جھنڈے پر قواعدی خط میں مذہبی اقوال لکھے تھے، جو اسلام کی یکجہتی اور خاندان کی طاقت کو اجاگر کرتے تھے۔
اس دور میں عربی خطاطی کو ثقافت اور مذہب کی علامت کے طور پر بھی بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاتا رہا۔ اسلامی اقوال اور خطاطی کے آرائشی عناصر کا قومی علامتوں میں استعمال کئی صدیوں تک جاری رہا اور اس نے آج کی عراق کی علامتوں پر اثر ڈالا۔
سولہویں صدی سے عراق عثمانی سلطنت کے کنٹرول میں تھا، اور اس دوران عراق کی قومی علامتیں عثمانیوں کی علامتوں سے وابستہ تھیں۔ بنیادی قومی علامت ایک سرخ جھنڈا تھا جس پر ہلال اور ستارہ تھے، جو اسلام اور عثمانی حکمرانی کی علامت تھے۔ یہ جھنڈا مختلف صوبوں میں استعمال ہوتا رہا، بشمول عراقی شہر بغداد، بصرہ اور موصل۔
عثمان کی علامتیں بیسویں صدی کے آغاز تک غالب رہیں، جب عراق پہلی جنگ عظیم کے بعد برطانوی سلطنت کے کنٹرول میں آیا۔ عثمانی حکمرانی کا دور بھی عراق کی آرکیٹیکچر اور ثقافت پر اثر انداز ہوا، جس کا اظہار عمارتوں اور عوامی عمارتوں کے سٹائل میں ہوا۔
پہلی جنگ عظیم کے خاتمے اور عثمانی سلطنت کے ٹوٹنے کے بعد، عراق کو لیگ آف نیشنز کی نگرانی میں انگلینڈ کے زیر انتظام کردیا گیا۔ 1921 میں حاشمی سلطنت قائم ہوئی، اور عراق کا بادشاہ فیصل اول بنا۔ اس دور میں عراق کا پہلا سرکاری جھنڈا منظور کیا گیا۔ یہ ایک مستطیل کپڑے پر تین افقی خطوط پر مشتمل تھا: سیاہ، سفید اور سبز، جبکہ ڈنڈے کے قریب ایک سرخ مثلث اور مثلث کے مرکز میں سات نکاتی سفید ستارہ تھا۔ یہ رنگ عربی یکجہتی اور عثمانی سلطنت کے خلاف عربی بغاوتوں کے تعلق کی علامت تھے۔
عراقی سلطنت 1958 تک قائم رہی، جب ایک انقلاب ہوا اور سلطنت کا خاتمہ ہوگیا۔ اس دوران علامتیں ایک جیسی رہیں اور آزادی اور قومی شناخت کی آرزو کی عکاسی کرتی رہیں۔
1958 کے انقلاب کے نتیجے میں سلطنت کا خاتمہ ہوا، اور عراق ایک جمہوریہ بن گیا۔ جمہوریہ کا نیا جھنڈا تین افقی خطوط پر مشتمل تھا: سیاہ، سفید اور سبز، جبکہ ڈنڈے کے قریب سرخ تروپیس کا میدان اور دو سبز ستارے تھے۔ سبز ستارے عربی یکجہتی کی علامت تھے، جبکہ جھنڈے کے رنگ پین عرب جذبات کی عکاسی کرتے تھے۔
جمہوریہ کے قیام کے ساتھ ہی قومی نشان اور علامتیں بھی تبدیل کی گئیں۔ اس دور میں عربی سوشلزم اور انٹی امپیریلزم کے ساتھ وابستہ علامات کا استعمال کیا گیا، جو ملک کی آزادی اور خودمختاری کی طلب کو اجاگر کرتی تھیں۔
1968 میں عراقی حکومت میں بعث پارٹی کا قبضہ ہوا، اور اس کے رہنما صدام حسین نے 1991 میں خلیج کی جنگ کے اختتام پر ایک نیا قومی جھنڈا منظور کیا۔ جھنڈے میں تین افقی لائنیں (سرخ، سفید اور سیاہ) تھیں اور مرکز میں تین سبز ستارے تھے۔ بعد میں ستاروں کے درمیان قاعدی خط میں "اللہ اکبر" کا الفاظ شامل کیا گیا، جو اس بات کی علامت تھا کہ ریاست کا اسلامی کردار ہے۔
اس دور میں عراقی علامتیں صدام حسین کے режим کی سیاسی اور مذہبی نظریہ کو اجاگر کرتی تھیں۔ سبز ستارے عربی یکجہتی کی علامت تھے، جبکہ "اللہ اکبر" کا ذکر اسلام سے وابستگی کو ظاہر کرتا تھا۔
2003 میں صدام حسین کے regime کے خاتمے کے بعد قومی علامتوں کا جائزہ لینے کا عمل شروع ہوا۔ 2004 میں ایک نیا جھنڈا منظور کیا گیا، جس پر تین افقی خطوط (سرخ، سفید اور سیاہ) برقرار رہے، لیکن سبز ستارے ہٹا دئیے گئے۔ البتہ، "اللہ اکبر" کا ذکر جھنڈے پر برقرار رہا، لیکن اب یہ حسین کے خط سے نہیں بلکہ روایتی عرب طرز میں لکھا گیا تھا۔
عراق کا جدید جھنڈا 2008 میں باقاعدہ طور پر منظور ہوا اور آج تک وہی ہے۔ یہ تین خطوط اور "اللہ اکبر" کے ذکر پر مشتمل ہے، جو اسلام اور قومی شناخت کی علامت ہے۔ یہ ایک جدید عراق کی علامت ہے، جو امن اور اتحاد کی جستجو میں ہے، طویل تنازعات کے بعد۔
عراق کا نشان بھی بیسویں اور اکیسویں صدی میں متعدد تبدیلیوں سے گزرا۔ جدید نشان میں سونے کا عقاب صلاح الدین کا تصویر شامل ہے جس کے ساتھ جھنڈے کے رنگوں میں رنگین ڈھال ہے۔ عقاب ملک کی قوت اور عزم کی علامت ہے۔ نشان پر عربی زبان میں لکھا گیا عبارت "جمہوریہ عراق" خودمختاری اور ریاست کی آزادی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہے۔
عراق کی قومی علامتوں کی تاریخ ان تمام پیچیدگیوں اور تبدیلیوں کی عکاسی کرتی ہے جو ملک نے گذشتہ صدیوں میں برداشت کی ہیں۔ اس کی تاریخ کا ہر مرحلہ، چاہے وہ قدیم تہذیبوں ہوں، عربی خلافت، عثمانی حکومت، یا جدید جمہوریہ ہو، اس کے علامتوں میں اپنا نشان چھوڑ گیا ہے، جو عراق کی ریاست کی نمائندگی کرتی ہیں۔ آج کے ملک کے جھنڈے اور نشان امید، اتحاد اور استحکام کی تلاش کے علامات ہیں، طویل تنازعات اور تبدیلیوں کے بعد۔