عثمانی دور عراقی، جو 1534 سے لے کر بیسویں صدی کے آغاز تک جاری رہا، اس علاقے کی تاریخ میں ایک اہم دور تھا۔ یہ دور سیاسی استحکام، اقتصادی ترقی اور ثقافتی عروج کی خصوصیت رکھتا تھا، لیکن اس کے ساتھ اندرونی تنازعات اور بیرونی خطرات سے منسلک چیلنجز بھی موجود تھے۔
عثمانی سلطنت، جو تیرہویں صدی کے آخر میں قائم ہوئی، آہستہ آہستہ اپنے ہی علاقے کو وسیع کرتی گئی، جو یورپ، ایشیا اور افریقہ میں وسیع علاقے کو کنٹرول کرتی تھی۔ 1534 میں، اپنے دوسرے ایران کے حملے کے دوران، سلطان سلیمان اول نے بغداد کو فتح کر لیا، جو عراقی میں عثمانی حکومت کا آغاز تھا۔ یہ واقعہ اس علاقے کی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوا، کیونکہ عراق ایک انتہائی طاقتور سلطنت کے کنٹرول میں آ گیا تھا۔
عثمانی سلطنت نے اپنے علاقوں کو ولایتوں (صوبوں) میں تقسیم کیا، جن کا انتظام مقرر کردہ گورنروں کے ذریعے ہوتا تھا۔ عراق بغداد کی ولایت کا حصہ بن گیا، جو سلطنت کی سیاسی اور اقتصادی زندگی میں ایک اہم کردار ادا کرتا تھا۔ ولایت کا انتظام بغداد کے مرکز سے کیا جاتا تھا، جو ایک اہم انتظامی اور ثقافتی مرکز بن گیا۔
عراق کی اقتصادی حالت عثمانی دور میں زراعت، تجارت اور ہنر مندی پر منحصر تھی۔ اس علاقے کی زرخیز زمینیں زراعت کی ترقی میں مددگار ثابت ہوئیں، اور شہر اہم تجارتی مراکز بن گئے۔
اس دور میں عراق کی زراعت دریائے دجلہ اور فرات کے آبی وسائل کی بدولت پھلی پھولی۔ بنیادی فصلوں میں گندم، جو، چاول اور کپاس شامل تھیں۔ عثمانی حکام نے زرعی پیداوار کی حوصلہ افزائی کی، جس نے مقامی آبادی کے معیار زندگی میں بہتری کو فروغ دیا۔
تجارت عراق کی معیشت کا ایک اہم حصہ تھا۔ بغداد اور دیگر بڑے شہر، جیسے کہ بصری اور کرکوک، مشرق اور مغرب کے درمیان اہم تجارتی مراکز بن گئے۔ اسلامی تاجر یورپ، ایشیا اور افریقہ کے ساتھ سرگرم تجارت کرتے تھے، جس نے علاقے میں ثقافتی تبادلے اور اقتصادی ترقی کو بڑھایا۔
عثمانی دور میں عراق کے ثقافتی عروج کا دور بھی دیکھا گیا۔ فن، تعمیرات اور ادب میں نمایاں ترقی ہوئی، جس نے عراق کو اسلامی ثقافت کے مراکزمیں سے ایک بنا دیا۔
اس دور کی تعمیرات شاندار مساجد، محلات اور عوامی عمارتوں سے بھرپور تھی۔ ایک مشہور تعمیرات مسجد النوری ہے جو موصل میں بارہویں صدی میں تعمیر ہوئی تھی اور عثمانی دور میں دوبارہ بنائی گئی تھی۔ اس کے علاوہ کئی کاروان سرا اور بازاروں کی تعمیرات قابل ذکر ہیں، جنہوں نے تجارت کی ترقی کو بڑھایا۔
عثمانی دور کا ادب مختلف اور پیچیدہ تھا۔ شاعروں اور مصنفین نے عربی اور فارسی زبانوں میں تخلیقات تخلیق کیں، جو علاقے کے ثقافتی ورثے کو بڑھاتی ہیں۔ خطاطی اور منی ایچر فن بھی ترقی یافتہ ہوا، اور اس وقت کے بہت سے فن پارے دنیا بھر کے میوزیم میں موجود ہیں۔
عثمانی دور میں عراق کی سماجی ساخت پیچیدہ اور متنوع تھی۔ مقامی آبادی مختلف نسلی اور مذہبی گروہوں پر مشتمل تھی، بشمول عرب، کرد، ترکمان اور اسیری۔ اسلام کا مذہب بنیادی مذہب رہا، لیکن عیسائیت اور یہودیت جیسے دوسرے فرقے بھی موجود تھے۔
نسلی اور مذہبی گروہوں کے درمیان تعلقات مختلف تھے۔ جبکہ اکثر مقامی گروہ امن سے رہتے تھے، کبھی کبھار سیاسی اور سماجی حرکیات کے تحت تنازعات پیدا ہوتے تھے۔ عثمانی انتظامیہ نسلی گروہوں کے درمیان توازن برقرار رکھنے کی کوشش کرتی تھی، کچھ حقوق اور فوائد فراہم کرتی تھی تاکہ بے秡ی کو روکا جا سکے۔
سیاسی استحکام اور اقتصادی ترقی کے باوجود، عراق میں عثمانی دور بھی چیلنجز کا سامنا کرتا رہا۔ اندرونی تنازعات، طاقت کی جنگ اور بیرونی خطرات نے علاقے کی استحکام پر اثر ڈالا۔
سترہویں اور آٹھارہویں صدی کے دوران عراق میں عثمانی حکومت کے خلاف کئی بغاوتیں ہوئیں۔ یہ بغاوتیں عموماً اقتصادی مشکلات، مقامی آبادی کی بے چینی اور مقامی حکام کے درمیان طاقت کی جنگ کی وجہ سے تھیں۔
عثمانی سلطنت نے بیرونی خطرات کا بھی سامنا کیا، جن میں فارسی جنگیں اور یورپی طاقتوں کی مداخلت شامل تھیں۔ اس نے علاقے میں تناؤ پیدا کیا اور عراق میں عثمانی حکومت کی استحکام کو کمزور کیا۔
عراق میں عثمانی دور ایک اہم دور تھا، جس نے علاقے کی تاریخ میں گہرا نقش چھوڑا۔ سیاسی استحکام، اقتصادی ترقی اور ثقافتی عروج نے عراق کو اسلامی تہذیب کے مراکز میں سے ایک بنا دیا۔ تاہم، درپیش اندرونی اور بیرونی چیلنجز نے عثمانی سلطنت کی زوال کی وجوہات فراہم کیں اور بیسویں صدی کے آغاز میں نئی تبدیلیوں کی راہ ہموار کی۔