بیسویں صدی نیوزی لینڈ کے لیے اہم تبدیلیوں کا دور بن گیا، خاص طور پر عالمی جنگوں کے تناظر میں۔ ملک کی ان تنازعات میں شرکت نے اس کے داخلی معاملات، بین الاقوامی تعلقات اور شناخت پر گہرا اثر ڈالا۔ نیوزی لینڈ نہ صرف پیسفک میدان جنگ میں ایک اہم کھلاڑی بن گیا، بلکہ عالمی سطح پر بھی اسے تسلیم کیا گیا۔
پہلی عالمی جنگ کے آغاز سے پہلے نیوزی لینڈ برطانوی سلطنت کا حصہ تھا، اور اس کی خارجہ پالیسی بڑی حد تک لندن کی طرف سے متعین کی گئی تھی۔ ملک کی معیشت ترقی کر رہی تھی، اور وہ بین الاقوامی تجارت میں فعال طور پر شامل تھی۔ تاہم، اس دور میں کچھ داخلی مسائل بھی تھے، جیسے کہ ماوری اور نوآبادیاتی حکام کے درمیان تنازعات۔
جب برطانیہ نے 1914 میں جرمنی کے خلاف جنگ کا اعلان کیا، تو نیوزی لینڈ نے بطور برطانوی سلطنت کا حصہ خود بخود تنازعے میں شمولیت اختیار کی۔ اس نے تقریباً 100,000 شہریوں کو جنگ کے محاذوں پر بھیجا، جو ایک ایسے ملک کے لیے ایک اہم تعداد تھی جس کی آبادی ایک ملین سے کم تھی۔
نیوزی لینڈ کی جنگ میں شمولیت کے اہم واقعات میں شامل تھے:
پہلی عالمی جنگ نے نیوزی لینڈ کے عوام کی ذہنیت پر گہرا اثر چھوڑا۔ 18,000 سے زائد فوجی ہلاک ہوئے، اور کئی خاندانوں نے اپنے پیاروں کو کھو دیا۔ یہ نیوزی لینڈ کی شناخت کی تشکیل کا آغاز تھا، اور فوجی یادگاریں ملک کی ثقافتی زندگی کا ایک اہم حصہ بن گئیں۔
جنگوں کے درمیان کے دور میں نیوزی لینڈ نے عظیم کساد بازاری کی وجہ سے اقتصادی مشکلات کا سامنا کیا۔ اس کے باوجود، ملک نے ترقی جاری رکھی، اور 1930 کی دہائی میں حکومت نے اقتصادی مدد اور سماجی تحفظ کے لیے فعال اصلاحات شروع کیں۔
دوسری عالمی جنگ کے آغاز پر 1939 میں نیوزی لینڈ نے دوبارہ برطانیہ کی حمایت کا اعلان کیا۔ اس نے مختلف جنگی محاذوں، بشمول شمالی افریقہ، یونان اور پیسفک میں شامل ہونے کے لیے اہم فوجی دستے بھیجے۔
نیوزی لینڈ نے کئی اہم مہمات میں حصہ لیا:
جنگ نے نیوزی لینڈ کی سماجی ساخت میں اہم تبدیلیاں لائیں۔ خواتین نے ان مردوں کی جگہیں سنبھال لیں جو جنگ میں تھے، جس سے صنفی کرداروں میں تبدیلی اور خواتین کے حقوق میں اضافہ ہوا۔ یہ معاشرے میں برابری کو یقینی بنانے کی جانب ایک اہم قدم تھا۔
دوسری عالمی جنگ کے اختتام کے بعد نیوزی لینڈ نے معیشت کی بحالی اور سابق فوجیوں کی شہری زندگی میں دوبارہ شامل ہونے کی ضرورت کا سامنا کیا۔ حکومت نے زندگی کی شرایط کو بہتر بنانے اور ملازمتیں پیدا کرنے کے لئے متعدد پروگرام شروع کیے۔
جنگ کے بعد کا دور بھی ثقافتی تجدید کا دور بن گیا۔ ملک میں ماوری ثقافت اور زبان کے تحفظ کے لیے سرگرم عمل کام شروع ہوا۔ یہ ایک وسیع تر عمل کا حصہ تھا، جس کا مقصد مقامی آبادی کے جائزے اور احترام کو یقینی بنانا تھا۔
جنگ کے بعد کے سالوں میں نیوزی لینڈ نے عالمی سیاست میں فعال طور پر شرکت کرنا شروع کی، پیسفک میں امن اور استحکام کے حق میں آواز بلند کی۔ یہ اقوام متحدہ میں شامل ہوا اور مختلف بین الاقوامی تنظیموں کا رکن بن گیا، جبکہ دیگر ممالک میں ڈی نازیفکیشن اور ڈی کالونائزیشن کی حمایت کی۔
ملک کی آزادی کو مستحکم کرنے کی جانب ایک اہم قدم 1986 میں آئینی قانون کی منظوری تھی، جس نے نیوزی لینڈ کی برطانیہ سے آزادی کی تصدیق کی۔ یہ فیصلہ ایک طویل عمل کی تکمیل تھی، جس کے دوران نیوزی لینڈ نے اپنے بین الاقوامی موقف کو مضبوط کیا۔
نیوزی لینڈ بیسویں صدی میں اور اس کی عالمی جنگوں میں شمولیت قومی شناخت کی تشکیل، سیاسی نظام اور سماجی ساخت کی ترقی میں اہم مراحل بن گئے۔ جنگوں نے قوم کی سوچ میں ناقابل فراموش اثرات چھوڑ دیئے اور ملک کے اندر اور بین الاقوامی سطح پر مزید ترقی کی بنیاد فراہم کی۔ آج نیوزی لینڈ انصاف، برابری اور تنوع کے احترام کی بنیاد پر اپنی کہانی جاری رکھے ہوئے ہے۔