عمان ایک ایسا ملک ہے جس کی تاریخ غنی اور ثقافت منفرد ہے، جو صدیوں سے مختلف بیرونی قوتوں کے اثر و رسوخ کا شکار رہا ہے۔ عمان کی آزادی کا راستہ طویل اور دشوار گزار رہا، جو کئی تصادمات، سماجی تبدیلیوں اور سیاسی تبدیلیوں سے گزرا۔ اس مضمون میں ہم اس راستے کے اہم مراحل، نوآبادیاتی طاقتوں کے اثرات اور آزادی حاصل کرنے کے لیے اہم ترین واقعات کا جائزہ لیں گے۔
قدیم زمانے سے عمان تجارتی راستوں کے سنگم پر واقع تھا، جو مختلف طاقتوں کی توجہ کا مرکز بنا۔ ملک اپنے وسائل، جیسے کہ مصالحے، لبنانی دیودار اور بعد میں تیل، کے لیے مشہور تھا۔ تاہم، سولہویں صدی سے عمان نوآبادیاتی عزائم کا شکار ہوا، خاص طور پر پرتگالیوں اور برطانویوں کی جانب سے۔
سولہویں صدی میں پرتگالیوں نے عمان کے اسٹریٹجک طور پر اہم ساحلی شہروں، جیسے مسقط، پر قبضہ کر لیا۔ تاہم مقامی قبائل نے مزاحمت کی، اور سترہویں صدی کے آغاز میں انہیں پرتگالیوں کو نکال باہر کرنے میں کامیابی ملی۔ یہ واقعہ عمان کے آزاد ملک کے طور پر ترقی کا ایک علامتی لمحہ بن گیا۔
پرتگالیوں کو نکالنے کے باوجود، عمان پر برطانیہ کا اثر بڑھتا رہا۔ انیسویں صدی میں برطانویوں نے عمان پر محافظت قائم کی، اس کی خارجی امور پر کنٹرول حاصل کر لیا اور اپنے تحفظ کو خطے میں یقینی بنایا۔ یہ دور مختلف قبائل اور سلطنتوں کے درمیان داخلی تنازعات کے باعث مرکزی حکمرانی کے کمزور ہونے کی خصوصیت رکھتا تھا۔
عمان اور برطانیہ کے تعلقات میں ایک اہم مرحلہ متعدد معاہدوں کا دستخط ہوا، جو عمان کی خود مختاری کو محدود کر کے برطانوی اثر و رسوخ کو مستحکم کرتے تھے۔ تاہم، اس کے باوجود مقامی رہنما آزادی کی بحالی کے لیے کوشاں رہے، جس کے نتیجے میں دور دور کی مزاحمتیں شروع ہوئیں۔
آزادی کی طرف جانے والے راستے پر ایک اہم واقعہ 1957 میں ہونے والا بغاوت تھا، جسے "جبال الہر" کی بغاوت کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ بغاوت برطانوی محافظت اور بدعنوان مقامی حکومت کے خلاف تھی۔ اس بغاوت کے مرکزی رہنما سید سعید ابن تیمور تھے، جو آزاد حکومت قائم کرنے اور عوام کی زندگی کے حالات کو بہتر بنانے کے خواہاں تھے۔
بغاوت کو عوام اور مختلف قبائلی رہنماوں کی حمایت حاصل تھی، مگر یہ برطانوی فوجوں کے ہاتھوں بےرحمی سے کچل دی گئی۔ باوجود اس کے، یہ بغاوت مقامی لوگوں کے لیے اپنے حقوق اور آزادی کے لیے لڑنے کی ضرورت کا پیغام بنی۔
1970 میں عمان میں ایک ریاستی بغاوت ہوئی، جس کے نتیجے میں سلطان قابوس ابن سعید اقتدار میں آئے۔ انہوں نے ملک اور اس کی معیشت کو جدید بنانے کے لیے کئی اصلاحات کا آغاز کیا۔ سلطان قابوس نے سمجھ لیا کہ حقیقی آزادی حاصل کرنے کے لیے داخلی بنیادی ڈھانچے اور تعلیم کی ترقی ضروری ہے۔
سلطان قابوس کے تحت عمان کی تاریخ میں ایک نئی عہد کا آغاز ہوا۔ انہوں نے "پرامن بقائے باہمی" کی پالیسی کا اعلان کیا اور دیگر ریاستوں کے ساتھ سفارتی تعلقات کو فروغ دینے کی کوشش کی۔ اس تناظر میں عمان نے ہمسایہ عرب ممالک اور عالمی طاقتوں کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے اقدامات شروع کیے۔
عمان کی آزادی 1971 میں باقاعدہ طور پر اعلان کی گئی، جب عمان اقوام متحدہ کا رکن بنا۔ یہ واقعہ عمان کے عوام کی خود ارادیت اور نوآبادیاتی اثر و رسوخ سے آزادی کے حق کے لیے سالوں کی جدوجہد کی عکاسی کرتا ہے۔ ملک نے ترقی کا آغاز کیا، سرمایہ کاری کو راغب کیا اور نئی ٹیکنالوجیز کو اپنایا۔
سلطان قابوس کی قیادت میں عمان ایک خوشحال ملک کے طور پر ابھرا، جو تیل، گیس اور سیاحت کی پیداوار پر مبنی معیشت کے ساتھ ثابت قدمی دکھاتا ہے۔ کی جانے والی اصلاحات کی بدولت ملک نے تعلیم، صحت اور سماجی بنیادی ڈھانچے کے میدان میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔
آج عمان ایک مستحکم اور ترقی پذیر ملک ہے جو اپنی منفرد ثقافت اور شناخت کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ حکومت اقتصادی ترقی کو بڑھانے اور عوام کی زندگی کے معیار کو بہتر بنانے کے لئے مسلسل اصلاحات کر رہی ہے۔ اپنے حصول کے باوجود، عمان کو معیشت کی تنوع اور سماجی مسائل کے حل جیسے چیلنجوں کا سامنا ہے۔
بین الاقوامی سطح پر عمان دوسرے ممالک کے ساتھ فعال تعلقات قائم رکھتا ہے، تنازعات میں ثالثی کرتا ہے اور تنازعات کے پرامن حل کی کوشش کرتا ہے۔ یہ عمان کی آزادی اور موجودہ دنیا میں خود کفالت کے حصول کی خواہش کی تصدیق کرتا ہے۔
عمان کی آزادی کا راستہ جدوجہد، عزم اور خود مختاری کے حصول کی کہانی ہے۔ یہ ملک کے منفرد تاریخی حالات اور ثقافتی روایات کی عکاسی کرتا ہے۔ آج عمان ایک آزاد ملک کے طور پر ترقی کر رہا ہے، جبکہ اپنے روایات اور اقدار کو بھی برقرار رکھتا ہے۔ عمان کی تاریخ ان قوموں کے لئے تحریک فراہم کرتی ہے جو آزادی اور خود مختاری کے حصول کی کوشش کر رہی ہیں، یہ ثابت کرتے ہوئے کہ حقوق اور وقار کے لئے جدوجہد کامیاب نتائج کی طرف لے جا سکتی ہے۔