ٹیویٹن آرڈر، جو بارہویں صدی کے آخر میں قائم ہوا، نے وسطی اور مشرقی یورپ کی تاریخ میں کلیدی کردار ادا کیا۔ یہ بسیط آرڈر مسیحی لوگوں کی حفاظت اور غیر مسیحی قوموں میں عیسائیت کے پھیلاؤ کے لیے بنایا گیا تھا، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں پُروس کے لوگ رہتے تھے۔
ٹیویٹن آرڈر 1190 میں تیسری صلیبی جنگ کے دوران وجود میں آیا۔ ابتدائی طور پر اس کے ارکان جرمن سپاہی تھے، جو فلسطینی عیسائیوں کی مدد کرنا چاہتے تھے۔ تاہم جلد ہی آرڈر نے مشرقی یورپ میں بت پرستی کے خلاف لڑائی کی طرف متوجہ ہونا شروع کیا۔
1226 میں پولینڈ کے شہزادے کنراد مایزوویکی نے ٹیویٹن آرڈر کو پروس میں بلایا تاکہ وہ غیر عیسائی پُروس کے لوگوں کے خلاف لڑ سکے۔ یہ پُروس کی جنگ کے نام سے مشہور ایک طویل اور خونریز جنگ کا آغاز تھا۔
ٹیویٹن آرڈر نے 1230 کی دہائی سے 1270 کی دہائی تک پُروس کے لوگوں کے خلاف جنگیں کیں۔ ان تصادم کے نتیجے میں کئی پُروس کے قبائل مغلوب ہوئے، اور یہ علاقہ آرڈر کی ریاست کا حصہ بن گیا۔
1300 میں ٹیویٹن آرڈر نے مشرقی یورپ میں بڑے علاقہ جات کا انتظام سنبھال لیا۔ ریاست پروس کے قیام کے ساتھ، آرڈر نے اپنی طاقت مستحکم کی اور اس خطے کی معیشت اور ثقافت کو فعال طور پر ترقی دینا شروع کیا۔
چودہویں اور پندرہویں صدی میں آرڈر نے ایک موثر انتظامی اور ٹیکس کے نظام کو قائم کیا، جو تجارت اور زراعت کی ترقی کو فروغ دیتے تھے۔ کئی شہر، جیسے کہ کونیگسبرگ (موجودہ کلیننگراد) کی بنیاد رکھی گئی۔
پندرہویں صدی کے دوران ٹیویٹن آرڈر نے متعدد تنازعات کا سامنا کیا، بشمول پولینڈ اور لیتھوینیا کے ساتھ جنگیں۔ 1410 میں مشہور گرونوالڈ کی جنگ ہوئی، جس میں آرڈر کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
1525 میں، شکستوں اور اصلاحات کے بعد، آرڈر کے عظیم صدر آلبرٹ ہوہن زولرن نے لوتھرنیت کی قبولیت کی اور آرڈر کی ریاست کو ایک دنیوی ڈکٹیریہ میں تبدیل کر دیا۔ یہ واقعہ پروس کی تاریخ میں ایک نئے دور کا آغاز تھا۔
ٹیویٹن آرڈر نے پروس اور پورے مشرقی یورپ کی تاریخ میں ایک گہرا اثر چھوڑا۔ اس کا ورثہ، بشمول معماری یادگاریں اور ثقافتی روایات، آج بھی خطے پر اثر انداز ہو رہا ہے۔