تاجکستان، وسطی ایشیا کا حصہ، اپنی تاریخ میں ایک طویل سفر طے کر چکا ہے، خاص طور پر بڑی سلطنتوں کی حکمرانی کے دوران، جیسے روسی سلطنت اور سوویت اتحاد۔ یہ مراحل علاقے کی سماجی-اقتصادی ترقی پر بڑا اثر ڈال چکے ہیں، ساتھ ہی اس کی ثقافتی اور سیاسی ڈھانچوں پر بھی۔ روس کا اثر، اور پھر سوویت اتحاد کا تاجکستان پر، ایک صدی سے زیادہ عرصے تک جاری رہا، جو انیسویں صدی کے آخر سے شروع ہو کر 1991 میں سوویت اتحاد کے انہدام تک جاری رہا۔
1868 میں، کئی عشروں کی عدم استحکام اور جنگوں کے بعد، موجودہ تاجکستان کا علاقہ روسی سلطنت کا حصہ بن گیا۔ اس وقت تاجکستان بخارا کے خاندانی حصہ میں شامل تھا، جو کہ روسی سلطنت کے تابع تھا۔ روسی سلطنت کا مقصد وسطی ایشیا میں اپنے اثر و رسوخ کو مضبوط کرنا تھا، اور تاجکستان، جس کی اسٹریٹجک حیثیت تھی، جغرافیائی کھیل میں ایک اہم شے بن گیا۔
1868 سے روس نے اس علاقے میں سرگرم مداخلت شروع کر دی، اور 1873 میں تاجکستان نے بخارا کے ایمارات کے ساتھ دستخط کردہ معاہدے کے ذریعے باقاعدہ طور پر روسی سلطنت کا حصہ بن گیا۔ اگلی دہائیوں کے دوران روسی حکام نے علاقے پر کنٹرول کو مضبوط کرنے کے لئے اقدامات کیے، جیسے فوجی مہمات، انتظامی ڈھانچے کا قیام اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر۔
تجارتی اور زراعت کی ترقی پر خاص توجہ دی گئی۔ سمرقند سے تاشقند تک کی ریلوے کی تعمیر نے تاجکستان اور سلطنت کے دیگر حصوں کے درمیان روابط کو بہتر بنا دیا، جس سے اقتصادی نمو میں بھی اضافہ ہوا۔ اسی دوران روس نے نئی زراعتی ٹیکنالوجیوں اور طریقوں کو فعال طور پر متعارف کرایا، جو اس علاقے کی زرعی معیشت میں اہم کردار ادا کرتا رہا۔
روسی سلطنت نے تاجکستان میں تعلیم اور ثقافت پر بھی خاص اثر ڈالا۔ اس دوران نئی سائنسوں اور زبانوں کی تدریس کی جاتی تھی، اور کئی اسکول اور تعلیمی ادارے کھلنے لگے۔ نتیجتاً، روس کو اس علاقے میں مغربی تعلیمی معیاروں اور نئے خیالات کو متعارف کرانے میں کامیابی ملی۔ تاہم، روسی حکام اور مقامی تاجک آبادی کے درمیان تعلقات پیچیدہ رہے، اور علاقے کی روسیائی زبان میں تبدیلی نے بہت سے مقامی لوگوں کے درمیان عدم اطمینان اور مزاحمت پیدا کی۔
1917 کی انقلاب کے بعد اور سوویت اتحاد کے قیام کے بعد، تاجکستان نئے سوویت سیاسی اور اقتصادی نظام کا حصہ بن گیا۔ 1924 میں تاجک اے ایس آر کا قیام عمل میں لایا گیا، جو ازبکستان کی ایس ایس آر کی تشکیل میں شامل ہوا، اور 1929 میں اسے تاجک سوویت سوشلسٹ ریپبلک میں تبدیل کیا گیا۔ یہ واقعہ تاجکستان کی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل تھا، کیونکہ اس ریپبلک نے سوویت اتحاد کے ایوان میں رسمی طور پر تسلیم کیا۔
سوویت حکومت نے تاجکستان کی سماجی-اقتصادی ساخت میں اہم تبدیلیاں لائیں۔ پہلا قدم زرعی اصلاحات کا نفاذ تھا، جو روایتی زمین کی ملکیت کو متاثر کرتی تھی۔ کسانوں کو جاگیرداری کی ذمہ داریوں سے آزاد کر دیا گیا اور انہیں اجتماعی زمین کی ملکیت میں منتقل کیا گیا، جو کہ اجتماعی عمل کا آغاز تھا۔ سوویت حکومت نے صنعتی ترقی کو بھی فعال طور پر متعارف کرایا، جس کے نتیجے میں تاجکستان میں نئے کارخانے قائم ہوئے، خاص طور پر ٹیکسٹائل اور فوڈ انڈسٹری کے شعبے میں۔
اس کے ساتھ، شہری زندگی کا آغاز ہوا، جب بڑی تعداد میں لوگ کارخانوں اور فیکٹریوں میں کام کی تلاش میں شہروں کی طرف منتقل ہونے لگے۔ نئے شہر اور آبادیاں بڑھنے لگیں، اور ملک کی ثقافت اور سماجی زندگی سوویت نظریہ کے اثر سے تبدیل ہونے لگی۔ اس دوران بنیادی ڈھانچے کی ترقی بھی ہوئی، جس میں سڑکیں، پل، ریلوے اور توانائی کے منصوبے شامل تھے۔
1920-1930 کی دہائیوں میں سوویت حکومت نے مذہبی روایات کے خلاف مہمات شروع کیں، جو طویل عرصے تک تاجک معاشرے کی زندگی میں اہم کردار ادا کرتی رہیں۔ سوویت حکومت نے ملحدیت کی تشہیر کی، مساجد اور دیگر مذہبی اداروں کو بند کیا، جس کے نتیجے میں مذہبی حلقوں کی طرف سے شدید مزاحمت پیدا ہوئی۔ تاہم، اس دور میں کی جانے والی تبدیلیوں نے تاجکستان اور اس کی معیشت میں نمایاں تبدیلیاں لائیں۔
سوویت حکومت نے تاجکستان کی سماجی اور ثقافتی زندگی میں اہم تبدیلیاں کیں۔ ایک سب سے اہم قدم تعلیم کی ترقی تھی۔ نئی اسکولیں اور ادارے کھلنے سے، آبادی میں خواندگی کی شرح میں اضافہ ہوا۔ سوویت حکومت نے روسی زبان کو بین الاقوامی مواصلات کی زبان کے طور پر فعال طور پر متعارف کرایا، جس نے وسطی ایشیا اور روس کے مختلف قوموں کے درمیان روابط کو مضبوط بنایا۔
سوویت ثقافت نے آبادی کی روزمرہ زندگی میں فعال طور پر دخل اندازی کی۔ تھیٹر، سینما، ادبی جریدے اور فنون لطیفہ کے اسکول قائم کیے گئے۔ ریاستی سطح پر، ادبیات، فنون، اور موسیقی کے سوویت طرز کی ترقی کے لئے مہمات چلائی گئیں۔ سوشلسٹ اقدار کی تشہیر، جیسے محنت، اجتماعی سوچ، اور روشن مستقبل پر ایمان، مختلف فنون اور عوامی تقریبات کے مختلف اشکال میں ظاہر ہوتی تھی۔
لیکن یہ تبدیلیاں صرف ثقافتی اور سماجی پہلوؤں تک محدود نہیں تھیں۔ سیاسی نقطہ نظر سے تاجکستان، جیسے دیگر سوویت ریاستیں، ماسکو کے مرکزی حکومت کے سخت کنٹرول میں رہا۔ مقامی کمیونسٹ پارٹیوں کے پاس اقتدار تھا، لیکن اہم امور پر فیصلے ماسکو میں کیے جاتے تھے۔ اس دور میں تاجکستان کی تاریخ کا ایک اہم لمحہ عظیم قومی جنگ میں ریپبلک کی شرکت تھا، جب بڑی تعداد میں تاجک فوجی اور مزدور محاذ پر اور پیچھے کام کرنے کے لئے متعین کیے گئے۔
1980-1990 کی دہائیوں میں تاجکستان میں سنگین تبدیلیاں رونما ہوئیں، جن کے نتیجے میں سوویت اتحاد تحلیل ہوا۔ 1953 میں اسٹالن کی وفات کے بعد سوویت حکومت نے بتدریج سخت مرکزی نظام حکومت سے دور ہونا شروع کیا، جس کے نتیجے میں اہم سماجی اور اقتصادی تبدیلیاں آئیں۔ لیکن وسطی ایشیا میں اقتصادی اور سیاسی مسائل، بشمول تاجکستان، بڑھتے رہے۔ 1991 میں، سوویت اتحاد کے ٹوٹنے کے بعد تاجکستان ایک آزاد ریاست بن گیا۔
سوویت دور نے تاجکستان پر ایک گہرا اثر چھوڑا۔ اس نے سماجی-اقتصادی ڈھانچے میں اہم تبدیلیوں کا عندیہ دیا، سیاسی صورت حال کو تبدیل کیا، اور ثقافت اور سماجی زندگی پر اثر ڈالا۔ اگرچہ تاجکستان نے سوویت اتحاد کے زیر سایہ کچھ مسائل کا سامنا کیا، لیکن یہ دور ملک کی تاریخ کا ایک اہم حصہ رہا، اور اس دور میں بنیادی اصول آج بھی باقی ہیں۔