زیمبابوے کی آزادی کے لیے جدوجہد ملک کی تاریخ میں ایک اہم نقطہ ہے، جو 1960 کی دہائی کے اوائل سے 1970 کی دہائی کے آخر تک کے دورانیے کا احاطہ کرتی ہے۔ یہ تنازع ایک وسیع تر افریقی قوموں کی جدوجہد کا حصہ تھا جو کہ نوآبادیاتی حکمرانی اور نسلی امتیاز سے آزادی کے لیے لڑ رہی تھیں۔ یہ نہ صرف زیمبابوے کے لیے بلکہ پورے افریقہ کے لیے ایک اہم سنگ میل بن گیا، جس نے خود مختاری اور برابری کے حصول کی خواہش کی علامت دی۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد نوآبادیاتی سلطنتیں کمزور ہونے لگیں، اور زیادہ تر افریقی ممالک میں آزادی کے لیے تحریکیں شروع ہو گئیں۔ زیمبابوے میں، جو اُس وقت روڈیشیا کے نام سے جانا جاتا تھا، سفید اقلیت سیاست اور اقتصادی طاقت کو کنٹرول کرتی تھی، جبکہ یہاں کی سیاہ فام آبادی کو منظم امتیاز اور حقوق کی کمی کا سامنا تھا۔
1960 کی دہائی کے آغاز سے سیاہ فام آدمی کی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والی سیاسی جماعتوں کا قیام شروع ہوا۔ ان میں سے ایک بہت مؤثر جماعت افریقی قومی انجمن (African National Congress, ANC) تھی، جسے 1957 میں قائم کیا گیا تھا۔ تاہم، اس کے قیام کے کچھ ہی عرصے بعد، اس جماعت پر پابندی عائد کر دی گئی، اور اس کے رہنماؤں کو خفیہ طور پر کارروائی کرنی پڑی۔
1960 کی دھائی کے آخر تک آزادی کی جدوجہد میں دو اہم تحریکیں شامل ہو گئیں: زیمبابوے کا افریقی قومی اتحاد (ZANU) اور زیمبابوے کا افریقی قومی اتحاد-عوامی محاذ (ZAPU)۔ دونوں جماعتیں سفید اقلیت کے نظام کے خلاف لڑ رہی تھیں، لیکن ان کے طریقے مختلف تھے۔ ZANU، جس کی قیادت رابرٹ موگابے کر رہے تھے، نے مسلح جدوجہد پر زور دیا، جبکہ ZAPU، جس کی قیادت جوشوا نکومو کر رہے تھے، زیادہ سیاسی طریقوں کی جانب جھکاؤ رکھتا تھا۔
1964 میں ZANU اور ZAPU نے نوآبادیاتی حکومت کے خلاف باغیانہ کارروائیاں شروع کیں، جو مسلح تنازعے کا آغاز بنیں۔ باغی گروہ، جنہیں "کمانڈو" کہا جاتا تھا، نے نوآبادیاتی طاقتوں کو کمزور کرنے کے لیے فوجی اڈوں، پولیس اسٹیشنوں اور اقتصادی مقامات پر حملے کیے۔
1965 میں، روڈیشیا میں سفید اقلیت، وزیراعظم ایان سمتھ کی قیادت میں، برطانیہ سے یکطرفہ آزادی کا اعلامیہ جاری کیا۔ اس نے بین الاقوامی سطح پر مذمت کا سامنا کیا اور روڈیشیا کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کی گئیں۔ اس اعلامیے نے بھی تنازعے کو مزید بڑھا دیا، کیونکہ ملک کے سیاہ فام عوام نے آزادی کے لیے اپنی کوششیں تیز کر دیں۔
1970 کی دہائی میں آزادی کی جدوجہد عروج پر پہنچ گئی۔ باغی گروہوں اور نوآبادیاتی قوتوں کے درمیان تنازع ایک حقیقی جنگ میں بدل گیا۔ "بوش جنگ" (جسے زیمبابوے کی آزادی کی جنگ بھی کہا جاتا ہے) بہت سخت اور تباہ کن بن گئی۔ مقامی افراد دونوں اطراف سے تشدد کا شکار ہوئے، اور ہزاروں لوگ اپنے گھروں سے بے گھر ہو گئے۔
بین الاقوامی برادری کے دباؤ اور داخلی مزاحمت کے نتیجے میں، روڈیشیا کی سفید حکومت نے سیاہ جماعتوں کے رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات شروع کیے۔ ایک اہم لمحہ 1979 میں "لینکاشائر معاہدے" پر دستخط کرنا تھا، جس نے تنازعے کا خاتمہ کیا اور جمہوریت کی جانب منتقلی کے عمل کا آغاز کیا۔
1980 میں، زیمبابوے نے باضابطہ طور پر آزادی حاصل کی۔ بین الاقوامی نگرانوں کی نگرانی میں ہونے والے انتخابات میں، ZANU نے رابرٹ موگابے کی قیادت میں فتح حاصل کی۔ ان کی انتخابی کامیابی نے نوآبادیاتی حکمرانی کے خاتمے اور زیمبابوے کے لیے ایک نئی دور کے آغاز کی علامت بن گئی۔
زیمبابوے کی آزادی کے لیے جدوجہد ملک کی تاریخ میں ایک اہم باب ہے، جو آزادی اور انصاف کی خواہش کی عکاسی کرتا ہے۔ اگرچہ آزادی حاصل کی گئی، مگر نوآبادیاتی دور اور داخلی تصادم کے اثرات آج کے زیمبابوے میں ابھی بھی محسوس کیے جاتے ہیں۔ اس جدوجہد کے اسباق کو یاد رکھنا اہم ہے تاکہ تاریخ کا اعادہ نہ ہو اور ایک زیادہ منصفانہ مستقبل کی تعمیر کی جا سکے۔