XX صدی آذربائیجان کی تاریخ کا ایک انتہائی اہم اور طوفانی دور ثابت ہوا۔ یہ صدی کے آغاز میں پہلے عارضی آزادی کے دور سے لے کر سوویتی حکومت کے قیام اور 1991 میں مکمل آزادی کے حصول تک کا دورانیہ ہے۔ ان واقعات نے ملک کی ترقی، اس کی سیاست، معیشت اور ثقافت پر گہرا اثر ڈالا۔
XX صدی کے آغاز میں آذربائیجان روسی سلطنت کا حصہ تھا۔ تاہم، 1917 میں روس میں فیبروری انقلاب کے بعد، ملک میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں شروع ہوئیں۔ ان تبدیلیوں کے نتیجے میں 1918 میں آذربائیجان کی جمہوریہ (ADR) کا اعلان کیا گیا۔ یہ واقعہ ملک کی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل جبکہ خود مختاری اور خود حکمرانی کی خواہش کی علامت بنا۔
ADR نے صرف دو سال کام کیا، لیکن اس دوران مختلف شعبوں میں اہم کامیابیاں حاصل کی گئیں۔ ملک میں ایک آئین منظور ہوا، حکومت کے ادارے قائم ہوئے اور تعلیم و صحت میں اصلاحات کی گئیں۔ خواتین کو حق رائے دہی دیا گیا، جو مساوات کی طرف ایک اہم قدم ثابت ہوا۔ تاہم، اندرونی مسائل، جیسے مختلف نسلی گروپوں کے درمیان تنازعات اور اقتصادی مشکلات، صورتحال کو پیچیدہ بنا دیا۔
1920 میں، جب سوویتی حکومت روس میں قائم ہوئی، سرخ فوج باکو میں داخل ہوئی، اور آذربائیجان کی جمہوریہ اپنا وجود بند کر دیا۔ اس واقعے کے نتیجے میں آذربائیجان کی سوشلسٹ ریپبلک قائم ہوئی، جو سوویت اتحاد کا حصہ بن گئی۔
سوویتی حکومت کے دوران آذربائیجان نے بڑی تبدیلیوں کا سامنا کیا۔ ملک کی معیشت کو اجتماعی نظام میں ضم کیا گیا، اور صنعتی ترقی کا آغاز ہوا، جس سے تیل اور گیس کی صنعت کی ترقی کو فروغ ملا۔ باکو تیل کی پیداوار کا ایک اہم مرکز بن گیا، جس نے بہت سے فوائد حاصل کیے اور دوسری جمہوریہ سے بہت سے مزدوروں کو متوجہ کیا۔
اسی وقت، اسٹالن کی قمعی سیاست، بشمول بڑے پیمانے پر گرفتاریاں اور بے دخلیاں، بھی آذربائیجان کو متاثر کر گئیں۔ بہت سے لوگوں میں حوصلہ شکنی اور ثقافتی و علمی زندگی پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ تاہم، 1936 میں آذربائیجان کی سوشلسٹ ریپبلک کو اتحادی ریپبلک میں تبدیل کیا گیا، جس نے اسے کچھ حقوق دیے، حالانکہ حقیقی طاقت مرکز کے ہاتھوں میں ہی رہی۔
دوسری عالمی جنگ (1939-1945) نے آذربائیجان پر کافی اثر ڈالا۔ ملک میں بڑی تعداد میں مردوں اور عورتوں کو جنگ میں شرکت کے لیے متحرک کیا گیا، اور ان میں سے بہت سے محاذوں پر لڑے۔ آذربائیجان بھی سرخ فوج کے لیے ایک اہم رسد کی بنیاد بن گیا، جس نے تیل اور دیگر وسائل فراہم کیے۔
جنگ کے بعد آذربائیجان نے اپنی معیشت کی بحالی شروع کی۔ بحالی اور ترقی کا پروگرام تیل اور گیس کی پیداوار میں نمایاں اضافہ کرنے، اور دیگر صنعتوں کو ترقی دینے میں کامیاب رہا۔ باکو سوویت اتحاد کے اہم ترین صنعتی اور ثقافتی مراکز میں سے ایک بن گیا۔
تاہم، اقتصادی ترقی کے باوجود، ملک میں سیاسی قمعی سرگرمیاں برقرار رہیں، اور قومی شناخت کے مسائل مزید نمایاں ہونے لگے۔ 1960 کی دہائی میں آذربائیجانی لوگوں کے حقوق کی حفاظت اور ثقافتی روایات کی بحالی کے لیے قومی تحریک کی تیز رفتار شروع ہوئی۔
1980 کی دہائی کے آخر میں، پیریسٹرائیکا کے آغاز کے ساتھ، آذربائیجان میں قومی تحریکیں فعال طور پر ظاہر ہونے لگیں۔ 1988 میں، نگورنو قاراباغ میں آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان تنازعہ پھوٹ نکلا، جس نے قومی جذبات کے بڑھنے میں اضافہ کیا۔ ملک بھر میں سوویتی حکومت کے خلاف اور آزادی کے حق میں بڑے مظاہرے ہونے لگے۔
30 اگست 1991 کو آذربائیجان کی سوشلسٹ ریپبلک کی اعلیٰ اسمبلی نے آزادی کا اعلان کیا، جس کی تصدیق عوامی ریفرنڈم کے ذریعے ہوئی۔ یہ واقعہ آزادی کے لیے طویل جدوجہد اور قومی شناخت کے احیاء کا نکتہ عروج بنا۔ تاہم، آزادی کے اعلان کے بعد ملک اقتصادی مشکلات، سیاسی عدم استحکام اور مسلح تنازعات کا شکار ہوا۔
1992 میں آذربائیجان نے نگورنو قاراباغ کے تنازعہ کی وجہ سے آرمینیا کے ساتھ مسلح تنازعہ میں داخل ہوا، جس نے نمایاں نقصانات اور انسانی بحران کا باعث بنا۔ اس وقت ملک میں اندرونی تنازعات شروع ہوگئے، اور حکومت کئی بار مختلف سیاسی قوتوں کے ہاتھوں میں منتقل ہوئی۔ یہ واقعات معیشت اور عوامی نظم و ضبط کو شدید متاثر کرتے ہیں۔
1993 میں، اندرونی افراتفری کے حالات میں، حیدر علیyev، آذربائیجان کے معروف ترین سیاستدانوں میں سے ایک، اقتدار میں واپس آئے۔ انہوں نے ملک کی صورتحال کو مستحکم کرنے میں کامیابی حاصل کی اور ترقی کے ایک نئے مرحلے کا آغاز کیا۔ ان کی قیادت میں اقتصادی اصلاحات کی گئیں، جو غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے اور تیل کی صنعت کی ترقی کی طرف متوجہ تھیں۔
آذربائیجان بین الاقوامی میدان میں، خاص طور پر تیل کے شعبے میں ایک اہم کھلاڑی بن گیا، جس نے ملک کو عالمی مارکیٹ میں متعارف کرایا اور اس کی اقتصادی پوزیشن کو مستحکم کیا۔ اسی وقت، آرمینیا کے ساتھ تنازعہ بھی ایک اہم مسئلہ رہا، جس کے حل کے لیے بین الاقوامی مداخلت کی ضرورت تھی۔
XX صدی آذربائیجان کے لیے اہم تبدیلیوں کا دور ثابت ہوا، پہلی آزادی سے لے کر سوویتی حکومت کے قیام تک اور خود مختاری کی واپسی تک۔ یہ دور تجربات، تنازعات اور تبدیلیوں سے بھرا رہا، جس نے جدید آذربائیجانی شناخت کی تشکیل پر گہرا اثر ڈالا۔ ان تاریخی عملوں کی تفہیم موجودہ چیلنجز اور مواقع کے تجزیے کے لیے اہم ہے، جن کا آذربائیجان سامنا کر رہا ہے۔