آذربائیجان کی تاریخ میں ایران کا دور دورانیہ ایک طویل مدت کو محیط کرتا ہے، جو قدیم سلطنتوں سے شروع ہو کر 19ویں صدی کے آغاز تک ہے، جب یہ علاقہ روسی سلطنت کے کنٹرول میں آگیا۔ یہ دور آذربائیجان کے عوام کی ثقافتی، لسانی اور مذہبی شناخت کی تشکیل میں ایک کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ ایران کی سلطنت کا آذربائیجان پر اثر و رسوخ مختلف حیثیتوں میں موجود رہا، جو سیاسی، سماجی اور اقتصادی پہلوؤں کو شامل کرتا ہے۔
اپنے وجود کے آغاز سے ہی، مادائی سلطنت سے لے کر موجودہ آذربائیجان کے علاقے پر مختلف ایرانی سلطنتوں کا اثر رہا ہے۔ عیسوی میں چھٹی صدی میں آخمینی سلطنت کے قیام کے ساتھ، ایرانی ثقافت اور انتظامی نظام اس علاقے کی زندگی کے اہم اجزاء بن گئے۔ آخمینی سلطنت نے وسیع علاقوں پر حکومت کی اور آذربائیجان میں اپنی ثقافت، تعمیرات اور زبان متعارف کرائی۔
آخمینی سلطنت کے زوال کے بعد بھی، ایران کا اثر ساسانی سلطنت کے ذریعے جاری رہا، جس نے مقامی آبادی پر بھی نمایاں اثر ڈالا۔ ساسانیوں نے زرتشتی مذہب کی پوزیشن کو مستحکم کیا، لیکن بعد میں ساتویں صدی میں اسلام کے آنے کے ساتھ، مذہبی اور ثقافتی ترقی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔
آذربائیجان میں اسلام کے آنے کے ساتھ، ایرانی ثقافت اور اسلام آپس میں ملنا شروع ہوگئے، جس سے ایک منفرد ثقافتی شکل بن گئی۔ اسلام غالب مذہب بن گیا، اور فارسی زبان، جو ثقافت اور ادب کی زبان تھی، نے معاشرے میں اہم مقام حاصل کیا۔ اس دوران پہلے آذربائیجانی شاعروں کا ظہور ہوا جو فارسی زبان میں لکھتے تھے، اور مقامی روایات اور عادات کی عکاسی کرنے والے تخلیقات تخلیق کرتے تھے۔
ساسانیوں کے حکمرانی کے دور کا ایک نمایاں پہلو علم، فن اور تعمیراتی کلچر کا عروج تھا۔ مقامی لوگوں نے تعمیرات میں ایرانی روایات اپنائیں، جو وقت کے ساتھ ساتھ اب تک موجود یادگاروں میں ظاہر ہوتی ہیں۔ اس دور میں تعمیر کردہ مسجدیں اور محل اہم ثقافتی اور مذہبی مراکز بن گئے۔
ایران کے دور میں آذربائیجان کی معیشت متنوع اور فعال رہی۔ یہ علاقہ مشرق اور مغرب کو ملانے والے راستوں کے چوراہے پر ایک اہم تجارتی مرکز بن گیا۔ زراعت، مویشی پالنے اور دستکاری کی ترقی نے معاشی خوشحالی میں مدد فراہم کی۔ زراعت اور مختلف سامان، جیسے ریشم، مصالحے اور جواہرات کی تجارت، معیشت میں اہم کردار ادا کرتی رہی۔
مزید یہ کہ، اپنی اسٹریٹجک حیثیت کی وجہ سے، آذربائیجان قافلوں کی تجارت کا مرکز بن گیا۔ یہاں کے مقامات جیسے باکو، گنجہ، اور تبریز میں فعال ترقی ہوئی، جو اہم تجارتی مراکز بن گئے۔ وقت کے ساتھ ساتھ، سڑکوں اور بازاروں جیسے بنیادی ڈھانچے کے منصوبے تیار ہوتے گئے، جو تجارت اور اقتصادی سرگرمیوں کی مزید ترقی میں مددگار ثابت ہوئے۔
ایران کے دور میں آذربائیجان کی سیاسی ساخت متعدد سطحوں اور پیچیدگیوں پر مشتمل تھی۔ صدیوں کے دوران علاقے میں اقتدار ایک سلطنت سے دوسری سلطنت میں منتقل ہوتا رہا، جس کی وجہ سے سیاسی عدم استحکام پیدا ہوا۔ ایرانی حکمرانوں نے اپنی سلطنت کو مستحکم کرنے کے لیے مقامی سلطنتیں قائم کی، جو ان کی طرف سے علاقوں کو سنبھالتی تھیں۔
اس کے علاوہ، عربوں، ترکیوں اور منگولوں جیسے مختلف فاتحین نے صدیوں کے دوران آذربائیجان کی سیاسی صورت حال پر اثر انداز ہوا۔ نتیجتاً، اس علاقے میں مختلف خود مختار ریاستیں اور سلطنتیں وجود میں آئیں، جو اپنی آزادی اور خود مختاری کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتی تھیں۔
سیاسی تبدیلیوں اور عدم استحکام کے باوجود، ایرانی دور آذربائیجان کے لیے ثقافتی عروج کا دور بن گیا۔ شاعری، موسیقی، فلسفہ اور سائنس کی ترقی کا ایک اعلیٰ معیار تک پہنچ گیا۔ اس وقت کی ادب نے نیذمی گنجوی، فیزولی اور دیگر جیسے شاعروں کی تخلیقات سے مالا مال ہوئی، جن کے کاموں نے ایرانی اور مقامی دونوں روایات کی عکاسی کی۔
نیذمی، مثال کے طور پر، آذربائیجان کے مشہور شاعروں میں سے ایک ہیں، جن کے فارسی زبان میں تخلیقات نے بے پناہ کامیابی حاصل کی اور بہت سے مشرقی قوموں کے ادب پر اثر ڈالا۔ ان کی ایپک شاعری، جیسے "سات حسینائیں" اور "خسرو اور شیرین"، کلاسیکی تخلیقات بن گئیں، جو آج بھی مطالعہ اور قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں۔
مذہب سماجی زندگی میں اہم کردار ادا کرتا رہا۔ اگرچہ اسلام غالب مذہب بن گیا، آذربائیجان میں دیگر مذہبی روایات بھی برقرار رہیں۔ زرتشتی مذہب، عیسائیت اور دیگر مقامی عقائد موجود رہے، اور ان کا اثر آذربائیجان کی ثقافت اور لوگوں کی روزمرہ زندگی میں محسوس کیا جاتا رہا۔ یہ مذہبی تنوع ثقافتی تبادلے اور مختلف روایات کے تعامل کی راہ ہموار کرتا رہا۔
مقامی مسلمان عموماً شیعی اسلام کی پیروی کرتے تھے، جو اس علاقے کی مذہبی شناخت کی تشکیل پر بھی اثر انداز ہوا۔ شیعی روایات بعد میں آذربائیجان کی ثقافت اور سماجی زندگی کا ایک اہم حصہ بن گئیں۔
16ویں صدی سے آذربائیجان مختلف سلطنتوں کی دلچسپی کا مرکز بن گیا۔ عثمانی اور ایرانی مسابقت کے دوروں نے مسلسل جنگوں اور تنازعات کی شکل اختیار کر لی۔ یہ بیرونی خطرات علاقے کی استحکام پر منفی اثر ڈالتے رہے، اور 19ویں صدی کے آغاز میں آذربائیجان روس اور ایران کے درمیان اثر و رسوخ کی لڑائی میں مشغول ہو گیا۔
روسی - ایرانی جنگوں (1804-1813 اور 1826-1828) کے نتیجے میں آذربائیجان کی سرزمین روسی سلطنت اور ایران کے درمیان تقسیم ہو گئی۔ یہ واقعات علاقے میں ایرانی اثر و رسوخ کا خاتمہ بن گئے، تاہم اس دور کی وراثت آج بھی ثقافت، زبان اور لوگوں کی شناخت میں زندہ ہے۔
آذربائیجان کی تاریخ میں ایرانی دور نے ثقافت، زبان، اور مذہبی شناخت کی تشکیل میں گہرا نقش چھوڑا۔ یہ وہ وقت ہے جب مختلف ثقافتی اور مذہبی روایات مل کر علاقے کا منفرد چہرہ بناتیں ہیں۔ ایرانی ثقافت اور زبان کا اثر آج کے آذربائیجان میں محسوس کیا جاتا ہے، اور یہ دور اس کی تاریخ کا ایک اہم حصہ رہتا ہے۔ اس وقت کا بھرپور ثقافتی اور تاریخی تجربہ ملک اور اس کے لوگوں کی مزید ترقی کی بنیاد بن گیا، جس نے ان کی منفرد شناخت کی تشکیل کی۔