تاریخی انسائیکلوپیڈیا

ہمیں Patreon پر سپورٹ کریں

اسرائیل کی قومی علامتوں کی تاریخ

تعارف

اسرائیل کی قومی علامتیں یہودی قوم کی منفرد تاریخ، ثقافتی اقدار اور قومی نظریات کو ظاہر کرتی ہیں۔ ملک کا جھنڈا، نشان اور قومی نغمہ نہ صرف اس کی خودمختاری کی علامت ہیں، بلکہ آزادی اور خود مختاری کی کئی صد سالہ جدوجہد کی یاد دہانی بھی کرواتے ہیں۔ اس مضمون میں ہم اسرائیل کی قومی علامتوں کی تاریخ کا جائزہ لیں گے، قدیم دور سے لے کر جدید تشریحات تک۔

اسرائیل کا جھنڈا

اسرائیل کا جھنڈا 28 اکتوبر 1948 کو خودمختاری کے اعلان کے فوراً بعد اپنایا گیا۔ یہ ایک سفید میدان سے مل کر بنا ہے جس کے اوپر اور نیچے دو نیلی پٹیاں ہیں۔ جھنڈے کے رنگ گہرے علامتی معنی رکھتے ہیں: سفید رنگ امن اور پاکیزگی کی علامت ہے، جبکہ نیلا رنگ یہودی دعا اور آسمان کا رنگ ہے۔

جھنڈے پر نیلی پٹیاں تالیت کی عکاسی کرتی ہیں، جو کہ یہودی دعا کے لیے پہنا جانے والا رومال ہے۔ جھنڈے کی علامتیں یہودی روایت میں جڑیں رکھتی ہیں، اور اس کا ڈیزائن 19ویں صدی کے آخر میں یہودی ریاست کے قیام کی تحریک میں استعمال ہونے والے علامتوں کی طرف لوٹتا ہے۔ ان علامتوں میں سب سے نمایاں مینورا تھی، جو بعد میں اسرائیل کے نشان کا حصہ بن گئی۔

اسرائیل کا نشان

اسرائیل کا نشان 1949 میں منظور کیا گیا۔ یہ مینورا کی تصویر ہے — سات مشعلوں والا چراغ، جو یہودی قوم کا ایک قدیم علامت ہے اور یروشلم کے معبد کا ایک اہم حصہ تھا۔ مینورا زیتون کی شاخوں سے گھری ہوئی ہے، جو امن اور خوشحالی کی علامت ہیں۔ نشان کے نیچے عبرانی میں ایک تحریر ہے: "اسرائیل"۔

اسرائیل کا نشان نہ صرف یہودی قوم کے قدیم تاریخ کے ساتھ تاریخی تعلق کی عکاسی کرتا ہے بلکہ مستقبل کی طرف بھی ایک عزم کو ظاہر کرتا ہے۔ مینورا کو قومی شناخت اور روحانیت کی علامت کے طور پر منتخب کیا گیا، جبکہ زیتون کی شاخیں یہودی قوم کے لیے امن کی اہمیت کی یاد دہانی کرواتی ہیں۔

اسرائیل کا قومی نغمہ

اسرائیل کا قومی نغمہ "ہاتیکوا" ("امید") ہے، جس کا متن 1886 میں نفتالی ہرزیملم بن-یہودا نے لکھا، جبکہ موسیقی 1888 میں تخلیق کی گئی۔ "ہاتیکوا" یہودی قوم کی اپنی تاریخی وطن میں واپسی اور قومی ریاست کی بحالی کی امید کا اظہار کرتی ہے۔

اپنی منظوری کے بعد "ہاتیکوا" یہودی قومی تحریک کی علامت بن گئی اور بہت سے لوگوں کو آزادی کی جدوجہد کے لیے متحرک کیا۔ یہ نغمہ فعال طور پر جلسوں، میٹنگز اور مختلف ثقافتی تقریبات میں پیش کیا جاتا ہے، اور یہ یہودی ثقافتی شناخت کا ایک اہم حصہ بن گیا ہے۔ 1948 میں "ہاتیکوا" کو سرکاری طور پر اسرائیل کے ریاست کے نغمے کے طور پر اعلان کیا گیا۔

قومی علامتوں کی تاریخی جڑیں

اسرائیل کی قومی علامتوں کی تاریخی جڑیں قدیم دور میں گہری ہیں۔ علامتیں، جیسے مینورا، یہودی مذہبی اور ثقافتی زندگی کا حصہ رہی ہیں۔ مثلاً، مینورا کو سلیمان کے معبد میں استعمال کیا گیا اور یہ پوری تاریخ میں یہودی شناخت کی علامت بنی رہی۔

عثمانی حکومت اور برطانوی مینڈیٹ کے دوران، یہودی شناخت کی عکاسی کرنے والی علامتیں ترقی کرتی رہیں۔ 19ویں صدی کے آخر میں خوراکیہ ریاست کے قیام کی تحریک نے نئے علامتوں اور روایات کے قیام میں بھی مدد کی، جن میں جھنڈے اور نشان کا استعمال شامل تھا، جو خود مختاری کی کوششوں کی عکاسی کرتے ہیں۔

جدید تشریحات

1948 میں خودمختاری کے اعلان کے بعد، اسرائیل کی قومی علامتیں قومی شناخت کا ایک لازمی حصہ بن گئی ہیں۔ جھنڈا، نشان اور قومی نغمہ مختلف سرکاری اور ثقافتی تقریبات میں فعال طور پر استعمال ہوتے ہیں، ریاستی تقریبات سے لے کر کھیلوں کے ایونٹس تک۔

قومی علامتیں جدید تشریحات کا بھی شکار ہوتی ہیں۔ مثلاً، اسرائیل کے جھنڈے پر اضافی عناصر نمودار ہوسکتے ہیں، جو ملک میں رہنے والے معاشرے کی مختلف النوعیت کی عکاسی کرتے ہیں۔ جدید فنکار اور ڈیزائنرز روایتی علامتوں کے نئے بصری تشریحات تخلیق کرتے ہیں، انہیں نیا معنی اور اہمیت دیتے ہیں۔

نتیجہ

اسرائیل کی قومی علامتیں صرف تصاویر اور نغمے نہیں ہیں؛ یہ یہودی قوم کی کئی صد سالہ تاریخ، اس کی آرزوؤں اور امیدوں کی عکاسی کرتی ہیں۔ جھنڈا، نشان اور قومی نغمہ شناخت اور ثقافت کی اہمیت کی یاد دہانی کرواتے ہیں، اور ماضی، حال اور مستقبل کے درمیان مستقل تعلق کی بھی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ علامتیں لوگوں کو جوڑتی ہیں، نئے نسلوں کے اسرائیلیوں کے لیے فخر اور تحریک کا ذریعہ بنتی ہیں، اور قوم کی یکجہتی اور وابستگی کے احساس کو مضبوط کرتی ہیں۔

بانٹنا:

Facebook Twitter LinkedIn WhatsApp Telegram Reddit Viber email

دیگر مضامین:

ہمیں Patreon پر سپورٹ کریں