تاریخی انسائیکلوپیڈیا

اسٹیورٹس اور انگلینڈ میں خانہ جنگی

اسٹیورٹس کی بادشاہت کا دور انگلینڈ میں ایک اہم عرصے پر مشتمل ہے — 17ویں صدی کے آغاز سے لے کر 17ویں صدی کے آخر تک۔ یہ انگلینڈ کی تاریخ کے سب سے ہنگامہ خیز ادوار میں سے ایک تھا، جس میں متعدد سیاسی تنازعات، مذہبی مباحثے اور خانہ جنگی شامل تھی، جو انگلینڈ کی بادشاہت اور پارلیمانی نظام کے ارتقاء میں ایک اہم سنگ میل بنی۔ اسٹیورٹس کی حکمرانی کے دوران تاج اور پارلیمنٹ کے درمیان طاقت کے لیے جدوجہد ہوئی، جس کے نتیجے میں انگلینڈ کے سیاسی نظام میں اہم تبدیلیاں آئیں۔

اسٹیورٹس کی حکمرانی کا آغاز

اسٹیورٹس کی نسل 1603 میں انگلینڈ میں بادشاہت پر آئی، جب ملکہ الزبتھ اول فوت ہوئیں، جو ٹیودر نسل کی آخری نمائندہ تھیں۔ ان کا جانشین جیمز VI، جو اسکاٹ لینڈ کا بادشاہ تھا، انگلش اور اسکاٹش تاجوں کو متحد کرتا ہوا جیمز I انگلش بن گیا۔ یہ واقعہ انگلینڈ اور اسکاٹ لینڈ کی تاریخ میں ایک نئے دور کے آغاز کی علامت تھا۔

جیمز I نے مطلق العنانیت کی حمایت کی اور بادشاہوں کے "الہی حق" پر یقین رکھتا تھا، جس کا مطلب یہ تھا کہ اس کی طاقت براہ راست خدا کی طرف سے آتی ہے، اور اسے پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس سے انگلینڈ کی پارلیمنٹ کے ساتھ تنازعات پیدا ہوئے، جو بادشاہی اختیار کو محدود کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ جیمز اپنے عزائم کو مکمل طور پر عملی جامہ نہیں پہنا سکا، اور اس کی حکمرانی اس کے بیٹے چارلس I کے دور میں مزید سنگین تنازعات کی پیشگئی کر گئی۔

چارلس I کے دور میں تنازعات

1625 میں تخت پر بیٹھنے والے چارلس I نے اپنے والد سے مطلق العنانیت کی عہد و پیمان وراثت میں لی اور بغیر پارلیمنٹ کے حکمرانی کی کوشش کی۔ اس کی حکمرانی مملکت کے ساتھ کئی تنازعوں کے ساتھ گزرنے کی خاص طور پر ٹیکس اور مذہبی اصلاحات کے حوالے سے گزری۔

چارلس I نے نئی ٹیکسوں کا نفاذ کرکے پارلیمنٹ کو نظرانداز کرنے کی کوشش کی، جس نے اشرافیہ اور شہری آبادی کے درمیان عدم اطمینان پیدا کیا۔ 1629 میں اس نے پارلیمنٹ کو معطل کیا اور 11 سال تک بغیر اس کے حکومت کی، جسے "ذاتی حکمرانی" (Personal Rule) کہا جاتا ہے۔ اس دور نے تناؤ کے بڑھنے کا وقت بنا، کیونکہ بادشاہ پارلیمنٹ کی اجازت کے بغیر ٹیکس جمع کرتا رہا، جسے بہت سے لوگوں نے غیر قانونی سمجھا۔

مذہبی مسائل بھی تنازع کا ذریعہ بن گئے۔ چارلس نے انگلکان کلیسا میں اصلاحات کرنے کی کوشش کی، جس کے باعث پُریٹانوں کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، جو مذہبی معیارات کی مزید سختی کے طلبگار تھے۔ خاص طور پر یہ اصلاحات اسکاٹ لینڈ میں سخت مزاحمت کا باعث بنی، جہاں 1637 میں "بشپس کی جنگ" (Bishops' War) شروع ہوئی، جس کا آغاز چارلس کی طرف سے اسکاٹش کلیسا پر انگلکان رسومات مرتب کرنے کی کوشش سے ہوا۔

خان جنگی کا آغاز

1640 میں بادشاہ اور پارلیمنٹ کے درمیان تناؤ عروج کے عین عہد میں پہنچ گیا۔ مالی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے، چارلس I نے پارلیمنٹ کو بلانے پر مجبور ہوا، جس نے اس کی ذاتی حکمرانی کا خاتمہ کیا۔ نیا پارلیمنٹ جسے "طویل پارلیمنٹ" (Long Parliament) کہا جاتا ہے، بادشاہ کی طاقت کو محدود کرنے کے لیے پرعزم تھا۔

1641 میں پارلیمنٹ نے "عظیم بیان" (Grand Remonstrance) منظور کیا، جہاں اس نے چارلس پر طاقت کے غلط استعمال کا الزام لگایا اور بڑے پیمانے پر اصلاحات کا مطالبہ کیا۔ چارلس نے اس کا جواب پارلیمنٹ کے لیڈروں کو گرفتار کرنے کی کوشش سے دیا، جس سے کھلی بغاوت کا آغاز ہوا۔ 1642 میں خانہ جنگی شروع ہوئی، بادشاہ کے حامیوں کو رائلٹس یا کیولیرز کے نام سے جانا جاتا تھا، اور پارلیمنٹ کے حامیوں کو "گول سر" کے نام سے۔

خان جنگی 1642 سے 1651 تک جاری رہی اور کئی مراحل میں ہوئی۔ ابتدائی طور پر کامیابی بادشاہ کے ساتھ تھی، لیکن جلد ہی پارلیمنٹ کی فوج، جس کی قیادت اولیور کرومویل نے کی، فتح حاصل کرنے لگی۔ کرومویل نے "نئی ماڈل آرمی" (New Model Army) قائم کی، جو ایک طاقتور فوجی قوت بن گئی۔ 1645 میں پارلیمانی فوج نے نیزبی کی جنگ میں رائلٹس کو فیصلہ کن شکست دی، جس کے بعد بادشاہ کا موقف نا امید کن ہوگیا۔

چارلس I کی سزائے موت اور جمہوریہ کا قیام

1646 میں چارلس I کو پارلیمنٹری قوتوں نے قید کیا، لیکن اس نے مذاکرات جاری رکھنے اور مختلف دھڑوں سے حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ 1648 میں اس نے دوبارہ بغاوت اٹھانے کی کوشش کی، جس سے خانہ جنگی کا دوسرا مرحلہ شروع ہوا، لیکن یہ کوشش جلد ہی دبادی گئی۔

1649 میں چارلس I پر غداری کے الزام میں مقدمہ چلا اور اسی سال جنوری میں اسے سزائے موت دی گئی۔ یہ انگلینڈ کی تاریخ میں ایک نایاب واقعہ تھا — پہلی بار کسی بادشاہ کو عوامی طور پر عدالتی فیصلے سے سزائے موت دی گئی۔ چارلس کی سزائے موت کے بعد انگلینڈ کو ایک جمہوریہ قرار دیا گیا، جسے "انگلش جمہوریہ" (Commonwealth) کہا جاتا ہے، اور ملک کے امور پارلیمنٹ اور کرومویل کے ہاتھوں میں آگئے۔

اولیور کرومویل کا پروٹیکٹوریٹ

اولیور کرومویل نئی جمہوری انگلینڈ میں ایک کلیدی شخصیت بن گیا۔ 1653 سے اس نے "لارڈ پروٹیکٹر" کا لقب اختیار کیا اور حقیقت میں ریاست کا سربراہ بن گیا۔ اس کی حکمرانی مخالفین کو دبانے اور نظم و ضبط قائم کرنے کے سخت اقدامات کے ساتھ گزری۔ کرومویل نے پارلیمنٹ کو تحلیل کیا اور فوجی آمرانہ حکومت کی مدد سے ملک پر حکومت کی۔

کرومویل نے ایک جارحانہ خارجہ پالیسی اپنائی، جس کا مقصد عالمی سطح پر انگلینڈ کی حیثیت کو مضبوط کرنا تھا۔ اس دور کا ایک اہم واقعہ آئرلینڈ اور اسکاٹ لینڈ میں بغاوتوں کو دبانا تھا، جہاں کرومویل نے استبدادی مہمات چلائیں تاکہ انگلینڈ کا اقتدار ان علاقوں میں مستحکم کیا جا سکے۔ اس نے بحریہ کی ترقی کی بھی حمایت کی اور ہالینڈ اور اسپین کے خلاف کامیاب فوجی مہمات چلائیں۔

بادشاہت کی بحالی

1658 میں اولیور کرومویل کی موت کے بعد، اس کے بیٹے رچرڈ کرومویل نے حکمرانی جاری رکھنے کی کوشش کی، لیکن اس کے پاس کافی حمایت نہیں تھی۔ ملک ایک طوفان میں مبتلا ہونا شروع ہوگیا، اور یہ جلد ہی واضح ہوگیا کہ جمہوریہ بغیر ایک مضبوط رہنما کے زندہ نہیں رہ سکے گی۔

1660 میں، مذاکرات کی ایک سیریز کے بعد، جنرل جارج مونک، جو اسکاٹ لینڈ میں فوج کا کمانڈر تھا، نے بادشاہت کی بحالی کا فیصلہ کیا۔ اس نے چارلس I کے بیٹے، چارلس II کو انگلینڈ واپس آنے کی دعوت دی تاکہ وہ تخت سنبھالے۔ اس واقعے کو "اسٹیورٹس کی بحالی" کہا جاتا ہے۔ چارلس II انگلینڈ واپس آیا، اور اس کی تاجپوشی نے جمہوری دور کے خاتمے اور بادشاہت کی بحالی کی علامت بنائی۔

چارلس II کی حکمرانی

چارلس II 1660 میں تخت پر بیٹھا، پارلیمنٹ کی دلچسپیوں کا خیال رکھنے کا وعدہ کیا۔ تاہم، اس کی حکمرانی بھی پارلیمنٹ کے ساتھ کشیدہ تعلقات کے ساتھ گزری، خاص طور پر خارجہ سیاست اور مذہب کے بارے میں۔ چارلس II نے کیتھولک ازم کی بحالی کی کوشش کی، جس سے ملک کے پروٹسٹنٹ اکثریت میں عدم اطمینان پیدا ہوا۔

چارلس II نے ملک میں نسبتاً سکون برقرار رکھنے میں کامیابی حاصل کی، لیکن 1685 میں اس کی موت کے بعد، اس کا بھائی، جیمز II، تخت پر آیا، جس کی کوششوں نے کیتھولک ازم کو نا چاہتے ہوئے ایک نئے بحران کا باعث بنایا۔

شاندار انقلاب اور اسٹیورٹس کی نسل کا اختتام

جیمز II، جو کیتھولک تھے، اپنی طاقت کو مضبوط کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور انگلینڈ میں کیتھولک چرچ کے اثر و رسوخ کو بڑھانے کی پالیسی کرتے تھے۔ یہ پروٹسٹنٹ آبادی اور اشرافیہ میں وسیع عدم اطمینان کا باعث بنا۔ 1688 میں، جب جیمز کا کیتھولک وارث پیدا ہوا، تو ایک گروپ انگلینڈ کے اشرافیہ نے ہالینڈ کے شہزادے ولیم آف اورنج، جیمز کی بیٹی ماریہ کے شوہر، کو اقتدار میں آنے کی دعوت دی۔

ولیام آف اورنج اسی سال انگلینڈ پہنچا، اور جیمز II، جس کے پاس کافی حمایت نہیں تھی، فرانس میں پناہ لینے پر مجبور ہوگیا۔ یہ واقعہ، جسے "شاندار انقلاب" کہا جاتا ہے، اسٹیورٹس کی حکمرانی کے اختتام کا باعث بنا۔ ولیام اور ماریہ مشترکہ بادشاہ بن گئے، اور پارلیمنٹ نے "حقوق کا بل" منظور کیا، جس نے بادشاہ کی طاقت کو محدود کیا اور پارلیمنٹ کی طاقت کو مستحکم کیا، انگلینڈ میں آئینی بادشاہت کے قیام کا آغاز کیا۔

نتیجہ

اسٹیورٹس کی حکمرانی اور خانہ جنگی نے انگلینڈ کے سیاسی نظام پر زبردست اثر ڈالا۔ تاج اور پارلیمنٹ کے درمیان تنازعات، مذہبی مباحثے اور جنگ نے ریاستی نظام میں بنیادی تبدیلیوں، جمہوریہ کے قیام اور بعد میں بادشاہت کی بحالی کا باعث بنی۔ ان واقعات کے نتیجے میں انگلینڈ نے آئینی بادشاہت کے قیام کی راہ اختیار کی، جو جدید جمہوری اداروں کی ترقی کی بنیاد بنی۔

بانٹنا:

Facebook Twitter LinkedIn WhatsApp Telegram Reddit email

دیگر مضامین: