تاریخی انسائیکلوپیڈیا

ریاستِ مشترکہ کا تیسرا تقسیم

ریاستِ مشترکہ کا تیسرا تقسیم، جو 1795 میں ہوا، اس ریاست کی مٹنے کے آخری مرحلے کا سبب بنا۔ اس مضمون میں تیسری تقسیم کی وجوہات، واقعات کا تسلسل اور اس کے نتائج کے ساتھ ساتھ ریاستِ مشترکہ کے مختلف قوموں کے مستقبل کے لیے اس کی اہمیت پر بات کی گئی ہے۔

تیسرے تقسیم کی پس منظر

ریاستِ مشترکہ کے دو سابقہ تقسیم کے بعد، جو 1772 اور 1793 میں ہوئے، اس کا علاقائی حجم کافی کم ہوا۔ ملک کا باقی حصہ موجود رہا، مگر سیاسی صورتحال انتہائی غیر مستحکم تھی۔ داخلی تنازعات اور بیرونی طاقتوں کی مداخلت نے آزادی کی بحالی کے امکانات کو بہت کم کر دیا۔

سیاسی صورتحال

ریاستِ مشترکہ میں حالات مسلسل بگاڑ کی طرف جا رہے تھے، جیسا کہ ٹارنوگراد کی کنفیڈریشن (1792) جیسے مستقل بغاوتوں اور تنازعات کی وجہ سے جو ریاست کی خودمختاری کی بحالی کی کوشش کر رہے تھے۔ مگر یہ کوششیں دبا دی گئیں، جو ہمسایہ طاقتوں کے دباؤ میں اضافہ کر گیا۔

بیرونی عوامل

ریاستِ مشترکہ کی مکمل مٹنے میں دلچسپی رکھنے والے اہم کھلاڑی وہی تھے: روس، پروس اور آسٹریا۔ یہ تینوں اپنے علاقے کی پوزیشن مضبوط کرنے اور اپنی سرحدوں کو بڑھانے میں دلچسپی رکھتے تھے۔

تیسرے تقسیم کا عمل

ریاستِ مشترکہ کا تیسرا تقسیم 24 اکتوبر 1795 کو اعلان کیا گیا۔ اس تقسیم میں اہم شراکت داروں نے باقی ماندہ زمینوں کی باہمی تقسیم پر اتفاق کیا۔

تقسیم کے شریک

تیسرے تقسیم کے بنیادی شریک تھے:

تقسیم کا تسلسل

تیسری تقسیم طاقتوں کے درمیان سفارتی معاہدوں کا نتیجہ تھی۔ پہلے روس اور پروس نے تقسیم پر ایک معاہدے پر پہنچے، اور پھر آسٹریا ان کے ساتھ شامل ہوا۔ اس تقسیم میں ریاستِ مشترکہ کو آخرکار تین حصوں میں تقسیم کیا گیا، اور اس کی آزادی مکمل طور پر ختم ہو گئی۔

تیسرے تقسیم کے نتائج

ریاستِ مشترکہ کا تیسرا تقسیم ملک اور اس کی آبادی کے لیے تباہ کن نتائج لایا۔ ریاست موجود نہیں رہی، اور عوام تین غیر ملکی طاقتوں کی عملداری میں آ گیا۔

سماجی نتائج

سماجی نقطہ نظر سے، تقسیم نے پولینڈ کی سوسائٹی پر ویران کن اثر ڈالا۔ بہت سے لوگوں نے اپنی زمینیں اور حقوق کھو دیے، جس سے بڑے پیمانے پر عدم اطمینان اور سماجی عدم استحکام پیدا ہوا۔ نئے احتجاج اور مزاحمت کی شکلیں ابھریں، مگر انہیں نئی طاقتوں کی جانب سے دبا دیا گیا۔

سیاسی نتائج

ریاستِ مشترکہ میں سیاسی زندگی مکمل طور پر ختم ہوگئی۔ تقسیم کے نتیجے میں تمام سابقہ قوانین اور ضوابط کالعدم ہو گئے۔ پولش زمینیں تین طاقتوں کے درمیان تقسیم کی گئیں، اور عوام ان کے مکمل کنٹرول میں آ گیا۔ ہر طاقت نے اپنی پالیسی پر عمل کیا، جو پولش ثقافت کو ملتوی کرنے اور سوڃھنے کے لیے تھی۔

ثقافتی نتائج

ریاستِ مشترکہ کی ثقافتی وراثت بھی کسیکٹ کی مورد کارروائی بنی۔ پولش ثقافت اور زبان کو سختی سے دبا دیا گیا۔ بہت سے ثقافتی اور تعلیمی ادارے بند ہوگئے، اور بہت سے پولش دانشوروں کو ہجرت کرنے پر مجبور کیا گیا۔ اس نے علاقے کی ثقافتی ترقی کو شدید نقصان پہنچایا۔

نتیجہ

ریاستِ مشترکہ کا تیسرا تقسیم پولینڈ اور لٹویا کی تاریخ میں ایک الم ناک صفحہ بن گیا۔ اس نے یہ ظاہر کیا کہ داخلی مسائل اور اتحاد کی عدم موجودگی کیسے آزادی کے نقصان کا باعث بن سکتی ہیں۔ پولینڈ کی خودمختاری کی بحالی ممکن ہوئی صرف کئی سال بعد، آزادی کی جنگ اور عوام کے طویل جدوجہد کے نتیجے میں، جو اپنے حقوق کے لیے لڑتا رہتا تھا۔

تیسرے تقسیم کی وراثت آج بھی محسوس کی جاتی ہے۔ ان واقعات کی یاد قوم کے ذہن میں محفوظ ہے اور آزادی اور قومی اتحاد کی اہمیت کا ایک اہم سبق فراہم کرتی ہے۔

بانٹنا:

Facebook Twitter LinkedIn WhatsApp Telegram Reddit email

دیگر مضامین: