لٹوینیا کی تاریخ سوویت یونین میں ایک ایسا دور ہے جو چار دہائیوں سے زیادہ کا احاطہ کرتا ہے اور اس میں کئی اہم واقعات، سماجی تبدیلیاں اور ثقافتی تبدیلیاں شامل ہیں۔ 1940 میں ضم ہونے کے بعد اور 1990 میں آزادی کی بحالی تک لٹوینیا نے ایک پیچیدہ سفر طے کیا جس میں تضاد، مشکلات اور اپنے حقوق و شناخت کے لئے جدوجہد شامل رہی۔
لٹوینیا 1940 میں سوویت یونین کا حصہ بنی جب مولوتوف-رِببنٹروپ معاہدہ سوویت یونین اور نازی جرمنی کے درمیان طے پایا۔ اس معاہدے نے مشرقی یورپ کو اثر و رسوخ کے حصوں میں تقسیم کیا، اور لٹوینیا سوویت کنٹرول کے علاقے میں آ گئی۔ جون 1940 میں پہلی سوویت قبضہ کاری شروع ہوئی، جس کے دوران بڑے پیمانے پر گرفتاریاں، جلاوطنی اور مقامی آبادی کے خلاف جبر ہوا۔
1941 میں نازیوں کے حملے کے بعد لٹوینیا جرمنی کے قبضے میں آ گئی، تاہم 1944 میں دوسری عالمی جنگ کے اختتام کے بعد سوویت یونین نے دوبارہ لٹوینیا پر کنٹرول قائم کیا۔ یہ دوسرا الحاق زیادہ سخت تھا، کیونکہ سوویت حکومت نے لٹوینیا کو مکمل طور پر سوویت یونین میں ضم کرنے کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں جبر اور جلاوطنی کی پالیست بن گئی۔
لٹوینیا میں سوویت حکومت کے دوبارہ قیام کے بعد سوویت کاری کی سرگرم سیاست کا آغاز ہوا۔ صنعت، زراعت اور تعلیم کی قومی مالکیت اختیار کی گئی۔ سوویت حکومت نے مرکزی اقتصادی نظام نافذ کیا، جس نے ملک کی معیشت کے ڈھانچے پر اثر ڈالا۔ لٹوینیا میں صنعتی ترقی ہوئی جس میں بڑے کارخانوں، بجلی گھروں اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر شامل تھی۔
تاہم، صنعتی ترقی نے منفی نتائج بھی دیے۔ مقامی آبادی کو اکثر سخت کام کے حالات اور اشیاء کی کمی کا سامنا کرنا پڑا۔ دیہی علاقوں میں اجتماعی زراعت کی گئی، جس نے کسانوں کی جانب سے مزاحمت بھی پیدا کی، اور ان میں سے بہت سے افراد کو جلاوطن یا مزاحمت کی وجہ سے سزا دی گئی۔
سوویت حکومت نے لٹوینیا میں ثقافتی اور سماجی زندگی کو بھی تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ کمیونسٹ خیالات کی تبلیغ کی گئی، اور ادب، فن اور سائنس حکومت کے سخت کنٹرول میں تھیں۔ تاہم، اس کے باوجود لٹوینیا کی ثقافت نے ترقی جاری رکھی۔ نئی ادبی و فنون کی تحریکوں کا ابھار، اور سوویت یونین کی ثقافتی زندگی میں لٹوینی شخصیات کی فعال شرکت نے قومی شناخت کے تحفظ میں مدد کی۔
1960 اور 1970 کی دہائیوں میں ایک دور آغاز ہوا جو "تھرمل" کے نام سے جانا جانے لگا، جب ثقافتی زندگی پر کچھ پابندیاں نرم کی گئیں۔ لٹوینی ادب اور فن کو زیادہ آزادی ملی، جس نے قومی خیالات کے اظہار کی راہ ہموار کی۔ یہ وقت لٹوین زبان اور ثقافت کی ترقی کے لئے اہم ثابت ہوا، اور بہت سے ثقافتی شخصیات نے سوویت پالیسی کی مذمت کی اور لٹوینیا کے مفادات کی وکالت کی۔
1980 کی دہائی میں، گلاسنوست اور پرسترویکا کے تناظر میں لٹوینیا میں قومی تحریک کا آغاز ہوا۔ یہ تحریک لٹوینی لوگوں کی آزادی اور قومی شناخت کی بحالی کی خواہش کی عکاسی کرتی تھی۔ لٹوینی قومپرستوں نے زیادہ خود مختاری اور لٹوینی عوام کے حقوق کی پہچان کے لئے مظاہروں، ثقافتی پروگراموں اور سیاسی کارروائیوں کا اہتمام کیا۔
1988 میں "سایودیس" کا قیام عمل میں آیا — ایک عوامی تحریک جو آزادی کے لئے جدوجہد میں ایک کلیدی کھلاڑی بن گئی۔ سایودیس نے کئی حامیوں کو جمع کیا، جن میں سائنسدان، ثقافتی شخصیات اور عام شہری شامل تھے جو تبدیلی چاہتے تھے۔ اس تحریک نے عوامی رائے کو متحرک کرنے اور قومی شناخت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔
17 مارچ 1990 کو لٹوینیا کی اعلیٰ کونسل نے آزادی کی بحالی کے اعلامیہ کی منظوری دی، جو آزادی کی راہ میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوا۔ اس کے جواب میں سوویت یونین نے لٹوینیا پر اقتصادی دباؤ ڈالنا شروع کیا، اور دھمکیاں اور جبر کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ جنوری 1991 میں ویلنیئس میں ہونے والے واقعات کے دوران سوویت فوج نے مظاہرین پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں لوگوں کی جانیں گئیں اور سوویت یونین کے اقدامات کی عالمی مذمت ہوئی۔
تاہم، لٹوینی لوگ پیچھے نہیں ہٹے، اور 11 مارچ 1990 کو لٹوینیا نے باقاعدہ طور پر اپنی آزادی کی بحالی کی۔ یہ اقدام نہ صرف لٹوینیا کے لئے بلکہ پورے مشرقی یورپ کے لئے ایک اہم لمحہ تھا، کیونکہ اس نے دیگر ممالک کو آزادی کی جدوجہد کے لئے تحریک دی۔ لٹوینیا کی آزادی کی بحالی کو خوشی اور جوش کے ساتھ Welcomed کیا گیا، اور لٹوینی لوگ اپنے ریاست اور ثقافتی شناخت کی بحالی کے کام کرنے لگے۔
سوویت حکومت کا دور لٹوینیا کی تاریخ میں گہرا اثر چھوڑ گیا۔ اگرچہ یہ دور جبر اور محرومی کی خصوصیات رکھتا ہے، لیکن یہ بھی ایک ایسا وقت تھا جب لٹوینی لوگوں نے اپنی قومی شناخت اور ثقافت کو مضبوط کیا۔ اس دور میں محفوظ کردہ کئی روایات، ادب اور زبان آزادی کی بحالی کے بعد بھی ترقی کرتی رہیں۔
سوویت دور نے اس معاشرتی بنیادی ڈھانچے کی تشکیل میں بھی مدد کی جو بعد از سوویت سالوں میں استعمال ہوا۔ اگرچہ لٹوینیا کو مارکیٹ معیشت کی طرف منتقل ہونے کے عمل میں سنگین اقتصادی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا، بہت سی کامیابیاں جو تعلیم اور سائنس کے شعبے میں حاصل کی گئیں وہ قیمتی رہیں اور ملک کی مزید ترقی کے لئے استعمال کی گئیں۔
لٹوینیا کی تاریخ سوویت یونین میں ایک پیچیدہ اور کثیر جہتی عمل ہے، جو ملک اور اس کے لوگوں کی تقدیر پر اہم اثر ڈالتی ہے۔ اس دور کو سمجھنا موجودہ لٹوینیا کی حقیقتوں، اس کی آزادی کی تمنا اور ثقافتی شناخت کے لئے اہم ہے۔ سوویت دور کے ورثے کا مطالعہ لٹوینی لوگوں اور دنیا کو یہ سمجھنے میں مدد کرتا ہے کہ تاریخی عمل کیسے معاشرے کی تشکیل کرتے ہیں اور یہ مستقبل پر کیسے اثر ڈالتے ہیں۔