تاریخی انسائیکلوپیڈیا

ہمیں Patreon پر سپورٹ کریں

شری لنکا کے ریاستی نظام کی ترقی

شری لنکا، جو اپنی قدیم تاریخ اور وسیع ثقافتی ورثے کے لیے مشہور ہے، نے اپنے ریاستی نظام کی ترقی میں ایک لمبا سفر طے کیا ہے۔ صدیوں کے دوران جزیرے کی سیاسی ساخت میں اہم تبدیلیاں آئیں، قدیم ریاستوں سے لیکر جدید جمہوری اداروں تک۔

قدیم ریاستیں

شری لنکا کے ریاستی نظام کی تاریخ پہلی ریاستوں جیسے کہ انورا داپورا اور پولوناروا کے دور سے شروع ہوتی ہے۔ یہ قدیم ریاستیں، جو تیسری صدی قبل مسیح سے تیرہویں صدی عیسوی تک موجود تھیں، ایک مرکزی بادشاہی نظام حکومت رکھتی تھیں۔ بادشاہ نہ صرف سیاسی رہنما تھے بلکہ بدھ مت کے روحانی سرپرست بھی تھے۔

انورا داپورا، جزیرے کی پہلی بڑی ریاست، اپنی آبپاشی کے نظام کے لیے مشہور تھی، جو زراعت اور معیشت کی حمایت کرتا تھا۔ پولوناروا، جو کہ بعد کی ریاست تھی، ایک ثقافتی اور سیاسی مرکز بن گیا، جہاں فن، تعمیرات، اور انتظامی ادارے ترقی پذیر ہوئے۔

بیرونی مداخلت کا دور

تیرہویں صدی سے شری لنکا نے بیرونی مداخلتوں کا سامنا کیا، جس نے ریاستی نظام میں نمایاں تبدیلیاں کیں۔ جنوبی بھارتی شاہی خاندان، جیسے کہ چولا، نے جزیرے پر عارضی طور پر قبضہ کیا، جس نے اس کی سیاسی ساخت پر اثر ڈالا۔

اس کے بعد، جزیرے پر کئی چھوٹے ریاستیں، جیسے کہ کنڈی، کوٹے اور جافنا، ابھریں، جو کہ آزاد حکمرانوں کے زیر انتظام تھیں۔ یہ دور سیاسی ٹکڑوں اور علاقے کے درمیان باہمی تصادم سے منسوب ہے۔

استعماری دور

شری لنکا میں استعماری دور کا آغاز یورپی طاقتوں کے آنے سے ہوا۔ پہلے یورپی، پرتگالی، سولہویں صدی میں آئے، اور ساحلی علاقوں پر کنٹرول قائم کیا۔ بعد میں، سترہویں صدی میں ہالینڈ والوں نے آئیں جو کہ انتظامی نظام اور تجارتی ڈھانچہ کو ترقی دی۔

بریتانیوں نے اٹھارہویں صدی کے آخر میں جزیرے پر قبضہ کرکے اسے ایک ہی انتظام کے تحت اکٹھا کردیا۔ انہوں نے ایک مرکزی استعمار حکومت کا نظام قائم کیا، جس میں انگریزی زبان اور جدید قوانین کا نفاذ کیا۔ برطانوی دور ریاستی نظام کی تشکیل میں ایک اہم مرحلہ ثابت ہوا، جو کہ جدید شکل کے قریب تھا۔

آزادی کی تحریک

بیسویں صدی کے آغاز میں قومی احساسات کی بڑھوتری ہوئی۔ انفرادی رہنماؤں جیسے کہ انندہ کمریسمی اور سلیمان باندرانائیک نے عوامی mobiliziation میں اہم کردار ادا کیا اور برطانوی حکومت سے آزادی کا مطالبہ کیا۔

1931 میں شری لنکا نے ریاستی کونسل کے نظام کے نفاذ کے ساتھ جزوی خودمختاری حاصل کی۔ یہ اقدام جمہوری اداروں کی مزید ترقی کی بنیاد بن گیا۔

آزادی اور پارلیمانی جمہوریت

شری لنکا، جو اس وقت سیلون کے نام سے جانا جاتا تھا، 1948 میں آزادی حاصل کی۔ اس سال منظور کردہ آئین نے ملک کو برطانوی دولت مشترکہ کے تحت ایک ڈومین کے طور پر تسلیم کیا۔ ریاست کے سربراہ کا عہدہ برطانیہ کی ملکہ کے پاس رہا، جو کہ گورنر جنرل کے ذریعے نمائندگی کی گئی۔

وزیر اعظم کی قیادت میں پارلیمانی نظام حکومت بنیادی انتظامی میکانزم بن گیا۔ سلیمان باندرانائیک اور ان کی جماعت نے اہم اصلاحات متعارف کروائیں، جس میں سنگھالی زبان اور ثقافتی اقدار کی ترقی شامل تھی۔

ریپبلکن نظام کی طرف بڑھنا

1972 میں شری لنکا نے خود کو ایک آزاد جمہوریت کے طور پر اعلان کیا، جس نے باضابطہ طور پر اپنا نام جمہوری سوشلسٹ ریپبلک شری لنکا میں تبدیل کیا۔ نئے آئین نے گورنر جنرل کی عہدے کو ختم کر دیا، اور صدر ریاست کا سربراہ بن گیا۔

1978 میں دوسری جمہوری آئین کو نافذ کیا گیا، جس نے صدر کو حکومت کرنے میں نمایاں اختیارات فراہم کی۔

شہری جنگ اور ریاستی نظام پر اس کا اثر

1983 سے 2009 کے درمیان شری لنکا نے شہری جنگ کا سامنا کیا، جو کہ سنہالیوں اور تمل اقلیتوں کے درمیان نسلی تنازع کی وجہ سے ہوئی۔ اس جنگ نے عسکری ڈھانچے کو مستحکم اور ریاست کے کردار کو سیکیورٹی میں بڑھایا۔

تنازع کے باوجود، جمہوری ادارے اپنا کام کرتے رہے، اگرچہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور شہری آزادیوں کی پابندیاں لگنے پر انہیں تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

جدید اصلاحات اور چیلنجز

2009 میں شہری جنگ کے خاتمے کے بعد شری لنکا نے اپنے ریاستی نظام کی بحالی اور اصلاح پر توجہ مرکوز کی۔ اختیارات کی غیر مرکزیت اور نسلی گروہوں کے درمیان تعلقات میں بہتری کے اقدام کیے گئے۔

آخری چند سالوں میں، ملک نے نئے چیلنجز کا سامنا کیا، جن میں اقتصادی مشکلات، سیاسی عدم استحکام اور جمہوری اداروں کو مضبوط کرنے کی ضرورت شامل ہے۔ تاہم، شری لنکا ایک مستقل اور شامل ریاستی نظام کے ترقی کی کوشش کرتا رہا ہے۔

نتیجہ

شری لنکا کے ریاستی نظام کی ترقی ملک کی امیر اور پیچیدہ تاریخ کی عکاسی کرتی ہے۔ قدیم ریاستوں سے لے کر جدید جمہوری طرز کی حکومت تک، شری لنکا نے بے شمار چالاکیوں اور اصلاحات سے گزرا ہے تاکہ ایک منفرد سیاسی نظام تشکیل دیا جا سکے، جو کہ روایات اور جدید اقدار کو اکٹھا کرتا ہے۔

ملک کا مستقبل چیلنجز کا سامنا کرنے اور اپنے ریاستی نظام کو مزید بہتر بنانے کی صلاحیت پر منحصر ہے تاکہ اس کے تمام شہریوں کے لیے استحکام اور خوشحالی کی ضمانت دی جا سکے۔

بانٹنا:

Facebook Twitter LinkedIn WhatsApp Telegram Reddit Viber email

دیگر مضامین:

ہمیں Patreon پر سپورٹ کریں