XVIII سے XIX صدیوں کا دور یوکرین کی تاریخ میں ایک اہم مرحلہ تھا، جس میں خطے کی سماجی، اقتصادی اور سیاسی زندگی میں تبدیلیاں آئیں۔ یہ صدییں یوکرینی قوم کی خود مختاری کی خواہشات اور مختلف سلطنتوں کے ساتھ انضمام کی گواہ رہیں، جس نے ملک کی مزید ترقی پر اثر ڈالا۔
XVIII صدی کے آخر میں، گتمانشچنی جو کہ 1654 میں پیریاسلاوی راڈا کے وقت سے موجود تھی، اپنی خودمختاری کھو بیٹھا۔ 1764 میں، گتمانت ختم کر دیا گیا، اور یوکرین روسی سلطنت کے تحت آ گیا۔ اس وقت پولینڈ کی تقسیم بھی ہوئی، جس نے مشرقی یورپ کے سیاسی نقشے کو نمایاں طور پر تبدیل کر دیا۔
پولینڈ کی پہلی دو تقسیموں کے نتیجے میں، جو کہ 1772 اور 1793 میں ہوئیں، یوکرین کے بڑے حصے روسی سلطنت کے حوالے کر دیے گئے، جبکہ دیگر علاقے جیسے کہ مغربی یوکرین آٹرجن سلطنت کے کنٹرول میں آگئے۔ ان واقعات نے یوکرین کی خود مختاری کے نقصان اور بڑے حکومتی خالی تشکیلات میں زبردستی انضمام کی راہ ہموار کی۔
XVI اور XIX صدیوں میں یوکرینی زمینوں نے نمایاں سماجی-اقتصادی تبدیلیاں دیکھیں۔ روسی سلطنت میں جاگیردارانہ نظام کی پالیسی جاری رہی، جس کا منفی اثر کسانوں کی زندگی پر پڑا۔ ہزاروں لوگ جاگیرداروں کے سامنے ذمہ داریوں میں بندھے ہوئے تھے، جس نے ان کے حقوق اور مواقع کو محدود کیا۔ کسان اکثر سخت ٹیکس کے نظام اور مقامی حکام کی من مانی کا شکار ہو جاتے تھے۔
اسی دوران گالیسیہ اور دیگر علاقوں میں، جو کہ آٹرجن سلطنت کے تحت تھے، کسان اپنے حالات میں بہتری حاصل کر رہے تھے۔ 1848 سے، یورپ میں انقلابی واقعات کے دوران، جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کا آغاز ہوا، جس نے کسانوں کو مزید حقوق اور آزادی حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا۔ تاہم، یہ تبدیلیاں آہستہ آہستہ ہو رہی تھیں، اور بہت سے کسانوں کے مسائل حل نہ ہوئے۔
XIX صدی میں یوکرین میں ثقافتی تجدید کا آغاز ہوا، جو کہ یوکرینی قومی خود آگاہی کی تشکیل کی بنیاد بنی۔ سائنسی اور ثقافتی تنظیمیں فعال طور پر ترقی کرنے لگیں، جو کہ یوکرینی زبان اور ثقافت کو پھیلانے میں مددگار ثابت ہوئیں۔ اس عمل کا ایک اہم عنصر ادبی سوسائٹیوں اور حلقوں کا قیام تھا، جہاں لکھاری، شاعر، اور سائنسدان خیالات پر بحث کرنے اور یوکرینی زبان میں تخلیق کرنے کے لیے جمع ہوتے تھے۔
مشہور یوکرینی لکھاری جیسے کہ تاراس شیوچنکو اور ایوان فرانکو نے یوکرینی ادب اور ثقافت کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کیا۔ خاص طور پر شیوچنکو، یوکرینی قوم کے حقوق کے لیے جدوجہد کی علامت بن گئے، اور ان کے کام سماجی مسائل اور آزادی کے خواہش کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان کی شاعری اور تصویریں بہت سے لوگوں کو آزادی اور خودمختاری کی جدوجہد کے لیے متاثر کرتی ہیں۔
XIX صدی کے آغاز سے یوکرین کے علاقے میں مختلف سیاسی تحریکیں ابھریں، جو کہ یوکرینی قوم کی حالت بہتر کرنے اور استحصال کے خلاف جنگ لڑنے کی نیت رکھتی تھیں۔ یہ تحریکیں اکثر روسی سلطنت کی جانب سے کریک ڈاؤن کا سامنا کرتی تھیں، جہاں کسی بھی قومی خود آگاہی کا مظاہرہ سختی سے کچل دیا جاتا تھا۔
اس دور کے ایک اہم ترین واقعات میں 1825 میں ڈیکابریسٹوں کی بغاوت شامل ہے، جس کا اگرچہ یوکرین سے براہ راست تعلق نہیں تھا، مگر اس نے یوکرینی دانشوروں پر اثر ڈالا۔ اس بغاوت نے آزادی اور قوموں کے خود ارادیت کے حق کے بارے میں سوالات اٹھائے، جو کہ بعد میں یوکرین میں قومی تحریکوں میں ظاہر ہوئے۔
یوکرین کی تاریخ پر XVIII اور XIX صدیوں میں ایک اہم عنصر بین الاقوامی تعلقات اور جنگیں تھیں۔ نیپولین کی جنگیں، 1812 کی جنگ اور یورپ میں دیگر تنازعات نے براعظم کی سیاسی صورتحال کو نمایاں طور پر تبدیل کیا اور یوکرینی زمینوں پر اثر ڈالا۔ ان جنگوں کے دوران مختلف قوتیں یوکرینی مسئلے کا استعمال اپنی مفادات کے حصول کے لیے کرنے کی کوشش کرتی تھیں، جس نے ملک کی صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔
یوکرین کی تاریخ XVIII-XIX صدیوں میں پیچیدہ اور متضاد رہی۔ یہ دور یوکرینی قوم کے اپنی شناخت، حقوق اور آزادی کے لیے جدوجہد کا نشان رہا۔ اگرچہ یوکرین غیر ملکی طاقتوں کے کنٹرول میں آ گیا، لیکن خود انتظام کے خواہش اور قومی شناخت زندہ باقی رہی۔ ثقافتی تجدید اور قومی خود آگاہی کی تشکیل مستقبل کی نسلوں کے لئے ایک بنیاد بنی، جنہوں نے آزادی اور اپنے حقوق کی پہچان کے لئے جدوجہد جاری رکھی۔