ہیٹمنشینا، جسے زاپوروجیہ سےچ یا قزاق ریاست بھی کہا جاتا ہے، یوکرین کی تاریخ میں ایک اہم باب ہے، جو 16ویں صدی کے آخری حصے سے 18ویں صدی تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ دور قزاقی خود مختاری کے قیام، ثقافتی عروج اور خارجی دشمنوں کے خلاف آزادی کی جدوجہد کے آغاز کے ساتھ نشان زد ہے۔ ہیٹمنشینا نہ صرف ایک سیاسی بلکہ ایک ثقافتی مرکز بن گیا، جہاں یوکرینی شناخت اور قومی خود آگہی کی تشکیل ہوئی۔
ہیٹمنشینا کا آغاز 16ویں صدی میں پولیش تسلط کے خلاف قزاقوں کی بغاوتوں سے وابستہ ہے۔ قزاق، جو کہ آزاد جنگجوؤں کی کمیونٹیز پر مشتمل تھے، اپنے حقوق اور آزادی کی حفاظت کے لیے فوجی تنظیمیں تشکیل دینے لگے۔ پولش شلیختا اور لیتھوانین حکام کے خلاف پہلی قزاقی بغاوتیں 16ویں صدی کے آغاز میں شروع ہوئیں، لیکن سب سے اہم بغاوتیں 17ویں صدی کے وسط میں ہیٹمن بوہدان خرمیلیٹسکی کے زیر قیادت تھیں۔
1648 میں ایک قومی آزادی کی جنگ شروع ہوئی، جسے خرمیلیٹسکی کی بغاوت کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ بغاوت ہیٹمنشینا کی تاریخ میں ایک اہم موڑ ثابت ہوئی، جس کے نتیجے میں قزاق ریاست اور یوکرینی زمینوں کی خود مختاری کا قیام عمل میں آیا۔ 1654 میں ہیٹمن خرمیلیٹسکی اور ماسکو کے درمیان پریاسلاو معاہدہ ہوا، جس نے یوکرین اور روس کے تعلقات میں ایک نئے دور کا آغاز کیا۔
1654 کی پریاسلاو کی رادا ہیٹمنشینا کے لیے ایک اہم واقعہ ثابت ہوئی، جس نے ماسکو کے ساتھ اتحاد کا آغاز کیا۔ یہ اتحاد مشترکہ دشمن، یعنی ریچ پیسپولیتا کے خلاف تھا۔ معاہدے کے نتیجے میں ہیٹمنشینا ایک خود مختار شکل میں ماسکو کے سلطنت کے حصے کے طور پر موجود رہی، اپنے داخلی معاملات اور انتظام کو برقرار رکھتے ہوئے۔ تاہم، رسمی خود مختاری کے باوجود، وقت کے ساتھ ساتھ ماسکو کے بادشاہ کی طاقت میں اضافہ ہوا، جس نے قزاقوں کے درمیان تنازعات اور عدم اطمینان کی صورت حال پیدا کی۔
17ویں صدی کے دوران ہیٹمنشینا ہیٹمانوں کی انتظامیہ میں تھی، جنہیں قزاقوں نے منتخب کیا۔ اس دور کی اہم شخصیات میں ایوان ویہوفسکی، یوری خرمیلیٹسکی اور ایوان معزیپہ شامل ہیں۔ ہر ایک نے ہیٹمنشینا کی خود مختاری کو مضبوط کرنے اور قزاقوں کے مفادات کی حفاظت کرنے کی کوشش کی، تاہم ان کی حکومت داخلی تنازعات اور تضادات سے متاثر رہی۔
مختلف قزاق گروپوں کے درمیان طاقت کے لیے اندرونی اختلافات اور جدوجہد نے ہیٹمنشینا کو کمزور کر دیا۔ خاص طور پر ماسکو کے ساتھ اتحاد کے حامیوں اور آزادی کے حامیوں کے درمیان تنازعات زیادہ شدید ہو گئے۔ ہیٹمان ایوان معزیپہ، ہیٹمنشینا کی خود مختاری کو بحال کرنے کی کوشش میں، 1708 میں سویڈن کے ساتھ اتحاد قائم کیا، جو 1709 میں پولتاوا کی لڑائی میں شکست کے بعد اس کے زوال کا باعث بنی۔
پولتاوا کی لڑائی میں شکست کے بعد ہیٹمنشینا نازک صورت حال میں آ گئی۔ ماسکو کے سلطنت نے یوکرینی زمینوں پر کنٹرول کو بڑھانا شروع کیا، جس کے نتیجے میں خود مختاری کی حدود اور قزاق خود مختاری پر دباؤ بڑھ گیا۔ ہیٹمان کی حیثیت رسمی ہو گئی، جبکہ حقیقی طاقت ماسکو کے گورنروں کے پاس چلی گئی۔ اس نے مزید زوال اور یوکرینی ثقافت کی انفرادیت کے نقصان کے لیے حالات پیدا کیے۔
1764 میں کیتھرین II نے ہیٹمنشینا کو مکمل طور پر ختم کر دیا، جو ہیٹمنشینا کی خود مختاری کا خاتمہ بنا۔ یوکرینی زمینیں صوبوں میں تقسیم ہو گئیں اور روسی سلطنت کے حصہ بن گئیں، جس نے یوکرینی آبادی کی مزید نسل کشی پر مجبور کیا۔ تاہم، ان تبدیلیوں کے باوجود، ثقافتی اور زبانی روایات دباو کے حالات میں بھی قائم اور ترقی پذیر رہیں۔
ہیٹمنشینا نے یوکرینی ثقافت اور تاریخ میں ایک نمایاں وراثت چھوڑی ہے۔ یہ دور ادب، فنون لطیفہ اور تعلیم کے عروج سے منسوب ہے۔ پہلی اسکولوں، تاریخ کی کتابوں اور سائنسی کاموں کی آمد نے یوکرینی ثقافت کی ترقی کی بنیاد رکھی۔ قزاقی گیت، کہانیاں اور روایات محفوظ رہیں اور نسل در نسل منتقل ہوئیں، جو یوکرینی شناخت کی تشکیلمیں مددگار ثابت ہوئیں۔
اس دور کا سب سے مشہور ادبی کام "سلوو او پولکو ایگوریوف" ہے، جو یوکرینی قزاقوں کے روح اور بہادری کی عکاسی کرتا ہے۔ اس زمانے کی فنون لطیفہ، بشمول پینٹنگ اور موسیقی، بھی تبدیلیاں پذیر ہوئیں، نئے اثرات حاصل کرتے ہوئے، جو ایک منفرد ثقافتی انداز کی تشکیل میں مددگار ثابت ہوئے۔
ہیٹمنشینا کی تاریخ یوکرینی تاریخ کا ایک لازمی حصہ ہے، جو عوام کی آزادی، خود مختاری اور خود حکمرانی کے لیے کوششوں کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ دور ثقافتی احیاء اور قومی خود آگہی کا زمانہ تھا، کئی چیلنجز اور مشکلات کے باوجود۔ ہیٹمنشینا نے یوکرین کے مستقبل کے لیے بنیاد رکھی اور اس کے جدید ترقی پر اثر انداز ہوئی۔ قزاقوں کی جانب سے چھوڑا گیا ورثہ یوکرینی عوام کے دلوں میں جیتا ہے، نئی نسلوں کو اپنی شناخت اور آزادی کی جدوجہد پر ابھارتا ہے۔