جنوبی کوریا کی قومی علامتیں، جن میں جھنڈا، مہر، اور قومی ترانہ شامل ہیں، ملک کی ثقافتی اور تاریخی شناخت کا اہم حصہ ہیں۔ یہ علامتیں نہ صرف کوریا کی ثقافتی وراثت کی عکاسی کرتی ہیں بلکہ قومی اقدار، امنگوں اور تاریخی واقعات کا اظہار بھی کرتی ہیں۔ جنوبی کوریا کی قومی علامتوں کی تاریخ ملک کی ترقی کے اہم مراحل سے گہرا تعلق رکھتی ہے، کورین سلطنت کے زمانے سے جدید جمہوریت کے دور تک۔ یہ علامتیں لوگوں کی استقامت اور اتحاد کی علامت ہیں، نیز آزادی، خوشحالی اور قومی خودمختاری کی خواہش کو ظاہر کرتی ہیں۔
جنوبی کوریا کا قومی جھنڈا، جسے ٹیکگک (태극기) کہا جاتا ہے، ملک کی سب سے زیادہ پہچانی جانے والی علامتوں میں سے ایک ہے۔ یہ جھنڈا 15 مارچ 1949 کو باضابطہ طور پر منظور کیا گیا اور اس کے بعد سے یہ کوریا کی خودمختاری اور اتحاد کی علامت کے طور پر استعمال ہورہا ہے۔ جھنڈا ایک سفید کینوس پر مشتمل ہے، جس پر دو علامتیں ہیں — ٹیکگ اور چار تینگراں، جنہیں کواک (괘) کہا جاتا ہے۔
ٹیکگ سرخ اور نیلے نصف دائروں کی شکل میں ہے، جو یین اور یانگ کے تصور کی نمائندگی کرتی ہے، مخالف قوتوں کے درمیان توازن کی علامت ہے۔ سرخ رنگ توانائی اور سورج کی پیدائش کی علامت ہے، جبکہ نیلا رنگ زندگی کے تاریک اور سرد پہلوؤں کی نمائندگی کرتا ہے، جیسے رات اور چاند۔ یہ بات اہم ہے کہ یہ تصور بھی تاؤ ازم کے فلسفے سے منسلک ہے، جس میں یین اور یانگ دنیا میں موجود ہر چیز کی بنیاد ہیں۔
جھنڈے کے ہر کونے میں چار تینگراں مختلف قدرتی عناصر اور فلسفیانہ اصولوں کی نمائندگی کرتی ہیں۔ یہ علامتیں چینی کتاب "یی جنگ" سے لی گئی ہیں اور کائنات میں حرکت اور ہم آہنگی سے مربوط ہیں۔ تینگراں آسمان، زمین، آگ اور پانی کی پیدائش کی نمائندگی کرتی ہیں، جو قدرتی قوتوں اور انسانی وجود کے درمیان تعلق کو اجاگر کرتی ہیں۔ جھنڈے کا رنگ، سفید، امن، پاکیزگی اور نیکی کی علامت ہے۔
ٹیکگ جھنڈے کی تاریخ ایک سو سال سے زیادہ پرانی ہے۔ ابتدا میں اسے 19ویں صدی کے آخر میں کورین سلطنت کے دور میں استعمال کیا گیا۔ جنوبی کوریا کا جدید جھنڈا 1945 میں جاپان سے آزادی حاصل کرنے کے بعد اور 1948 میں جمہوریہ کوریا کے قیام کے بعد باضابطہ طور پر منظور کیا گیا۔
جنوبی کوریا کا مہر، جسے گوانگجے (국장) کہا جاتا ہے، 1948 میں جمہوریہ کوریا کے قیام کے ساتھ منظور کیا گیا۔ مہر ایک گرد اشارہ ہے، جس کے مرکز میں ایک سفید کرمزی چمچ (مکیشا) کا پھول ہے، جو پاکیزگی، امن اور خوشحالی کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ پھول جنوبی کوریا کا قومی علامت ہے اور اس کی عمیق تاریخی جڑیں ہیں، کیونکہ یہ کوریا کی سلطنت کے دور میں بھی استعمال ہوتا تھا۔
پھول کے دونوں طرف دو اسٹائلیزڈ پٹیاں ہیں، جو پہاڑوں کی نمائندگی کرتی ہیں، جو کورین ثقافت میں استحکام، طاقت اور تحفظ کی علامت ہے۔ یہ عناصر قدرت کی اہمیت اور اس زمین کے لیے کورینوں کے احترام کو اجاگر کرتے ہیں، جس پر وہ رہتے ہیں۔ مہر کے گرد ملک کا نام کورین زبان میں لکھا گیا ہے، جو کہ "대한민국" (ڈیہانمنگ گُک) کے طور پر پڑھا جاتا ہے، جس کا ترجمہ "جمہوریہ کوریا" ہے۔
کرمزی پھول کا رنگ زرد سونے کا ہے، جو دولت، خوشحالی اور کامیابی کی علامت ہے۔ اس طرح، جنوبی کوریا کا مہر قدرتی اور ثقافتی عناصر کو شامل کرتا ہے، جو ایسے ملک کی نمائندگی کرتا ہے جو عالمی سطح پر امن، استحکام اور خوشحالی کی تلاش میں ہے۔
مہر کے کئی باضابطہ متبادل ہیں۔ یہ سرکاری عمارتوں، دستاویزات، اور سکوں اور نوٹوں پر استعمال ہوتا ہے۔ جنوبی کوریا کا مہر نہ صرف قومی ریاست کی باضابطہ نشانی ہے، بلکہ یہ لوگوں کی استقامت اور آزادی کی علامت بھی ہے۔
جنوبی کوریا کا قومی ترانہ "اریراں" (아리랑) کہلاتا ہے، اور یہ کورین ثقافت کے معروف ترین کاموں میں سے ایک ہے۔ یہ ترانہ 1948 میں منظور کیا گیا اور قومی شناخت اور آزادی کی جدوجہد کی علامت بن گیا۔ اریراں ایک ایسی گیت ہے جسے کورین مظاہروں، کھیلوں کے مقابلوں اور اہم تاریخی واقعات کے دوران گایا جاتا ہے۔ اس کی دھن اور متن مشکل وقت، استقامت، اور بہتر مستقبل کی امید کا پیغام دے رہے ہیں۔
نام میں "اریراں" کا لفظ کورینوں کی آزادی اور خوشحالی کی خواہش کی نمائندگی کرتا ہے، اور اپنی زمین کے لیے محبت اور فخر کے احساسات کا اظہار کرتا ہے۔ گانے میں مشکلات پر قابو پانے اور قوم کی استقامت کے موضوعات بھی ابھرتے ہیں، جو جنوبی کوریا کی تاریخی آزمائشوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ ترانہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ فن کیسے قومی علامتوں سے جڑا ہوا ہو سکتا ہے، قومی فخر اور اتحاد کی یاد دلاتا ہے۔
ترانہ "اریراں" کی کئی مختلف ورژنز اور تشریحات ہیں، لیکن ان سب میں بنیادی موضوعات محفوظ رہے ہیں، جو ملک سے محبت، ماضی کا احترام، اور مستقبل کی امید شامل ہیں۔ جنوبی کوریا میں یہ ترانہ آج بھی مضبوط جذباتی ردعمل پیدا کرتا ہے، اور اسے اکثر سرکاری تقریبات اور ثقافتی سرگرمیوں پر پیش کیا جاتا ہے۔
جنوبی کوریا کی قومی علامتوں کی ترقی ملک کی تاریخ کے اہم مراحل کی عکاسی کرتی ہے، جو کہ کورین سلطنت کے دور سے آج کے دن تک ہے۔ کوریا کی ابتدائی تاریخ میں، علامتیں کنفیوشنسٹ اور تاؤ ازم کے فلسفیانہ تعلیمات کے ساتھ گہری جڑی ہوئی تھیں، جنہوں نے ریاست کی ثقافتی اور سیاسی ترقی پر عمیق اثر ڈالا۔
کورین سلطنت (1392–1910) کے زمانے میں، علامتوں میں ڈریگن، قاقع، اور دیگر افسانوی مخلوق کی تصاویر شامل تھیں، نیز مختلف قدرتی عناصر کی تصاویر تھیں۔ سلطنت کا جھنڈا سرخ اور سفید رنگ میں تھا، جواسے یین اور یانگ کی علامت کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا، اور اس میں ڈریگن کی صورت میں مہر بھی استعمال ہوتی تھی۔
استعماری دور (1910–1945) کے بعد، جب کوریا جاپان کے کنٹرول میں تھا، علامتیں جاپانی طاقت کی عکاسی کرنے والی علامتوں سے تبدیل ہو گئیں۔ تاہم، دوسری جنگ عظیم کے خاتمے اور جنوبی کوریا کی آزادی کے بعد، ملک کی قومی علامتیں روایتی کورین اقدار اور قومی شناخت کے لحاظ سے تازہ کی گئیں۔
جدید جنوبی کوریا کی علامتیں ایک قوم کی نمائندگی کرتی ہیں، جو مشکلات کے لمحات سے گزری اور اپنی آزادی کی جدوجہد میں کامیاب ہوئی۔ ملک کا جھنڈا، مہر، اور ترانہ استقامت اور امن و خوشحالی کی خواہش کا اظہار ہیں، نیز جمہوریت اور آزادی کے نظریات کے لیے وابستگی کی ایک تصدیق ہیں۔
جنوبی کوریا کی قومی علامتوں کی تاریخ قدیم روایات اور افسانوی شکلوں سے جدید جمہوری قوم تک کا ایک سفر ہے۔ قومی علامتوں کا ہر عنصر، چاہے وہ جھنڈا ہو، مہر ہو یا ترانہ، اہم تاریخی واقعات، ثقافتی اقدار اور قومی فخر کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ علامتیں کورین لوگوں کے لیے تحریک کا ذریعہ اور یہ یاد دہانی بنی رہتی ہیں کہ کورین قوم ہمیشہ آزادی، خوشحالی، اور امن کی طرف بڑھتے رہے ہیں۔ آج جنوبی کوریا کی قومی علامتیں نہ صرف باضابطہ نشانی ہیں، بلکہ قومی اتحاد اور شناخت کو مضبوط بنانے والے اہم ثقافتی علامات بھی ہیں۔