کوریا کا نو آبادیاتی دور 1910 میں شروع ہوا، جب کوریا کو باقاعدہ طور پر جاپانی سلطنت نے ضم کر لیا، اور یہ 1945 تک جاری رہا، جب جاپان دوسری جنگ عظیم میں شکست کھا گیا۔ یہ دور کوریا کی تاریخ کا ایک بہت مشکل دور تھا، جس نے معیشت، ثقافت اور کورین قوم کی قومی شناخت پر گہرا اثر ڈالا۔
جاپان نے انیسویں صدی کے آخر سے ایشیا میں اپنی طاقت بڑھانے کی کوشش کی۔ کوریا میں اس کی اسٹریٹجک دلچسپی کئی عوامل کی بنا پر تھی، جن میں اس کی سودمند جغرافیائی حیثیت اور وسائل شامل ہیں۔ 1905 میں روس-جاپان جنگ میں فتح کے بعد، جاپان نے کوریا کے معاملات میں براہ راست مداخلت شروع کی، اسے پروٹیکٹوریٹ کے تحت لاتے ہوئے اس کی خارجہ پالیسی کو کنٹرول کر لیا۔
1910 میں، معاہدوں اور سفارتی چالوں کے سلسلے کے بعد، جاپان نے باقاعدہ طور پر کوریا کو ضم کر لیا، جسے اپنی نو آبادی بنا دیا۔ یہ فیصلہ کورین عوام پر مسلط کیا گیا، اور زیادہ تر کورینوں نے اسے تشدد اور نا انصافی کے عمل کے طور پر لیا، جس نے شدید مزاحمت کو جنم دیا۔
ضم کے بعد، کوریا میں اہم تبدیلیاں آئیں۔ جاپانی نو آبادیاتی حکومت نے سخت انتظامی نظام نافذ کیا، جس نے کورینوں کی خود مختاری کو محدود کردیا اور زندگی کے تمام پہلوؤں پر کنٹرول قائم کیا۔ کورینوں کو ثقافت اور روایات سے دستبردار ہونے پر مجبور کیا گیا، جو انضباط کی پالیسی کے دباؤ کے تحت تھا۔
سماجی ساخت بھی بدل گئی: بہت سے کورین نے اپنی زمینیں کھو دیں، اور تعلیمی اور مزدوری کے نظام کو جاپانی کمپنیوں کے لیے انسانی وسائل کی تیاری پر توجہ دی گئی۔ جاپانی انتظامیہ نے آزادی اظہار رائے کو سختی سے محدود کیا، قومی پسندوں کا پیچھا کیا، اور سخت سنسرشپ نافذ کی۔
جاپان نے اپنی معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے کوریا کے وسائل کا بھرپور استعمال کیا۔ یہ سب سے پہلے زراعت اور معدنی صنعت کے حوالے سے تھا۔ جاپانی کمپنیاں اور کارپوریشنز نے کوریا کے قدرتی وسائل کا استحصال کرنا شروع کر دیا، اور منافع کا بڑا حصہ جاپان چلا گیا۔
کورین کسان مزید غریب ہوتے گئے، کیونکہ زمینیں اور آمدنی جاپانیوں کے ہاتھوں میں چلی گئیں۔ کوریا کی صنعتی ترقی بھی جاپانی معیشت کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے تھی، نہ کہ مقامی آبادی کی زندگی کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے۔ اس نے سماجی عدم مساوات میں اضافہ اور زیادہ تر کورینوں کی زندگی کو خراب کر دیا۔
ثقافتی دباؤ بھی جاپانی نو آبادیاتی پالیسی کا ایک اہم پہلو تھا۔ جاپانی انتظامیہ نے کورین شناخت کو ختم کرنے کی کوشش کی، جاپانی زبان، لباس، اور مذہبی رسومات کو مسلط کیا۔ جاپانی اسکولوں میں کورین زبان کی تعلیم پر پابندی تھی، اور کورین ثقافت پر مستقل دباؤ تھا۔
تاہم، کورینوں نے مزاحمت کی۔ مزاحمت کی ایک علامت 1 مارچ 1919 کا تحریک بنی، جب کورین قومی پسندوں نے جاپانی قبضے کے خلاف بڑے احتجاج منظم کیے۔ یہ تحریک سختی سے دبائی گئی، لیکن یہ آزادی کی جدوجہد کی علامت بنی اور کئی آنے والی نسلوں کو متاثر کیا۔
جاپانی قبضے کے خلاف مزاحمت نے کوریا کی آزادی کے لیے زیرزمین تنظیموں اور قومی تحریکوں کے قیام کا سبب بنی۔ 1919 میں شنگھائی میں کوریا کی عارضی حکومت کا قیام عمل میں آیا، جو آزادی کی جدوجہد جاری رکھتے ہوئے بین الاقوامی کمیونٹی سے حمایت حاصل کرنے میں مصروف رہا۔
کوریا نے چین اور روس میں نو آبادیاتی تحریکوں کی بھی حمایت کی۔ یہ تعاون طاقتور تحریکوں کے قیام کی بنیاد بنا، جو بعد میں دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد کوریا کی آزادی حاصل کرنے میں مددگار ثابت ہوئیں۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران، جاپانی حکام نے ہزاروں کورینوں کو اپنی فوج میں بھرتی ہونے پر مجبور کیا۔ کورین جاپانی عسکری مہمات میں شامل ہوئے اور جاپانی فیکٹریوں میں کام کیا۔ بہت سے کورین محاذ پر بھیجے گئے، اور انہیں غلامی سے ملتے جلتے حالات میں سخت محنت پر مجبور کیا گیا۔
عورتیں بھی محاصرے کی پالیسی کا شکار ہوئیں: ہزاروں کورین خواتین "آرام دہ خواتین" بننے پر مجبور کر دی گئیں، جو کہ حقیقت میں جاپانی فوجیوں کے لیے جنسی غلام تھیں۔ یہ واقعات کورین معاشرے پر گہرا اثر چھوڑ گئے اور آج بھی بحث و مباحثے اور عدالتی مقدمات کا موضوع ہیں۔
دوسری جنگ عظیم میں جاپان کی شکست کے بعد، کوریا جاپانی حکومت سے آزاد ہو گیا۔ تاہم، آزادی نئے ملک کی تقسیم کے ساتھ متاثر ہوئی۔ 1945 میں، جاپان کی کیپچلیٹ کے بعد، کوریا کو سوویت یونین اور امریکہ کے زیر کنٹرول قبضہ زونز میں تقسیم کیا گیا۔
سوویتی اور امریکی انتظامیہ کے درمیان نظریاتی اختلافات نے دو علیحدہ حکومتوں کے قیام کا سبب بنا: شمال میں سوشلسٹ حکومت اور جنوبی میں سرمایہ دار حکومت۔ 1948 میں دو علیحدہ قومی حکومتوں کا قیام عمل میں لایا گیا — شمال میں کورین عوامی جمہوریہ اور جنوب میں جمہوریہ کوریا۔ یہ تقسیم طویل مدتی تنازع کی طرف لے گئی اور دنیا کی ایک بہت ملیٹریسڈ سرحدوں میں سے ایک کو قائم کر دیا۔
1950 میں کورین جنگ شروع ہوئی، جب شمالی کوریا کی افواج، جو سوویت یونین اور چین کی حمایت سے تھیں، 38ویں متوازی کو عبور کر کے جنوبی کوریا کی سرزمین پر حملہ آور ہو گئیں۔ یہ جنگ تین سال جاری رہی اور لاکھوں لوگوں کی جانیں لے گئیں۔ اقوام متحدہ اور امریکہ نے جنوبی کوریا کی مدد کی، لیکن جنگ محض ایک عارضی معاہدے کے ساتھ ختم ہوئی، نہ کہ امن معاہدے کے ساتھ۔
یہ واقعات کوریا کی دو ریاستوں کی تقسیم کو حتمی شکل دے گئے۔ کورین جنگ نے دونوں ممالک میں گہرے زخم چھوڑے، جو آج بھی محسوس کیے جاتے ہیں، اور شمال اور جنوب کے درمیان دشمنی کے تعلقات کو فروغ دیا۔
نو آبادیاتی دور نے کوریا کی تاریخ میں نمایاں نشانات چھوڑے۔ جاپانی قبضے کے معاشی، سیاسی اور ثقافتی زخم اب بھی کورین معاشرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ جاپانی قبضے کے جرائم کے متاثرین کے حقوق اور معاوضے کے مسائل آج بھی جنوبی کوریا اور جاپان کے درمیان تناؤ کا باعث ہیں۔
نو آبادیاتی دور نے کورینوں کی قومی شناخت کی تشکیل میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ یہ آزادی کی جدوجہد اور قومی ہیروز جیسے یون بون گِل اور آن چُن گِن کی پیدائش کا وقت تھا۔ یہ شخصیات حب الوطنی کی علامتیں ہیں اور کورین قوم کی سخت جدوجہد کی یاد ہیں۔